Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مطالعہ

***جاوید اقبال***
کرہ ارض کی اکلوتی سپر پاور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک مسئلہ ہے۔ نہیں بلکہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ منہاٹن نیویارک کے ففتھ ایونیو پر انتہائی پر غرور انداز میں کھڑے 202 میٹر بلند 58 منزلہ اپنے ملکیتی پرتعیش ٹرمپ ٹاور میں فردکش ہر لحظہ اپنی دولت میں مزید اضافہ کرنے کے بارے میں متفکر ڈونالڈ ٹرمپ کو اور کسی بات کا ہوش نہیں۔ انہیں اس بات کی خبر نہیں کہ جب کسی اسکول میں ان کے پروردہ دہشت گرد صبح سویرے گولیاں برساتے گھستے ہیں اور یونیفارم میں ملبوس پھولوں جیسے نازک بچوں اور بچیوں کے بدن چیرتے انہیں خون میں لت پت کئے موت کی آغوش میں مارتے ہیں تو کیا منظر ہوتا ہے۔ لمحوں میں آرزوئوں کی بستیاں ویران ہوتی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس بات سے بھی یقینا بے خبر ہیں کہ ان کے پالے ہوئے ستمگر آج بھی جنوبی ایشیا کے اس ملک میں کہرام مچارہے ہیں جس نے افغانستان پر قابض سوویت اتحاد کے قدم اکھاڑنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دی تھی اور امریکہ کو کرہ ارض کو اکلوتی سپرپاور بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا حالیہ الزام کہ پاکستان نے امریکہ کے لئے کچھ نہیں کیا مایوس کن ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے یا تو ان کے مشیر انہیں اندھیرے میں رکھ رہے ہیں یا پھر وہ 99 کے پھیر میں اتنے الجھ گئے ہیں کہ بین الاقوامی امور میں دلچسپی لینے کے لیے انہیں وقت ہی میسر نہیں ہورہا۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ وہ اپنے ہی کھاتے بند کر کے ایک طرف رکھیں اور گزشتہ 4 دہائیوں میں افغانستان اور پاکستان میں تشکیل ہونے والی اس تاریخ کا مطالعہ کریں جب ان 2 ممالک نے دنیا کی ایک سپرپاور سوویت اتحاد کو منہدم کیا تھا اور امرکہ کو یہ تاج پہنایا تھا۔ 80 کی دہائی میں سوویت اتحاد تو شکست و ریخت سے دوچار ہوا پھر اس کے بعد سکوت کیوں طاری نہ ہوا۔ اپنے سب سے بڑے محسن پاکستان کو کیوں امریکہ نے اب تک اپنا تختہ مشق بنا رکھا ہے؟ دسمبر 1980ء میں جب روسی فوجیں دریائے امو عبور کر کے کابل پہنچیں تو مغرب پر لرزہ طاری ہوگیا۔ سرخ فوج کا اگلا قدم بحیرہ عرب اور پھر خلیج کے گرم پانیوں میں پڑتا۔ یورپ کی اقتصادی موت واقع ہوتی۔ امریکہ کے جغرافیائی رستوں پر روک لگتی۔ چنانچہ پاکستان آگے آیا۔ افغانستان سے ترک مکانی کا آغاز ہوا۔ مہاجرین کے لئے پاکستان نے اپنی آغوش کھول دی۔ اگرچہ کابل سے سوویت اتحاد کا انخلا ہوچکا تھا۔ خانہ جنگی کے باعث ان کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے عوض میزبان معاشرے کو ہیروئن اور کلاشنکوف تحفے میں ملے۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے غیر مشروط دوستی اور اس کی اطاعت کا نتیجہ تھا۔  پشاور کے مضافات میں قائم جلوزئی کیمپ سب سے بڑا ہے اور افغان جہاد کے دوران یہیں مہاجرین استراحت کے لئے آتے تھے اور پھر تازہ دم ہوکر روسیوں کے شکار پر سرحد پار کرتے تھے۔ ان خیموں میں پشتون، تاجک، ازبک، ہزارہ، ترکمان، بلوچ اور درجنوں دوسرے افغان قبائل آباد تھے۔ رونالڈ ریگن کی حکومت کا فراہم کردہ اسلحہ یہیں جنرل اختر عبدالرحمان کی زیر نگرانی مجاہدین میں تقسیم ہوتا تھا، نو آموز یہیں تربیت حاصل کر کے پختہ مشق بنتے تھے اور سرحد پار کرتے تھے۔ پاکستان کے شانے پر امریکہ بہادر اپنی بندوق رکھے اس کی آڑ لیے ماسکو کا شکار کررہا تھا۔ جہاد اختتام پذیر ہوا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا۔ اس کا بھی خاتمہ نظر آرہا ہے لیکن ان 4 دہائیوں کے کشت و خون نے پاکستانی معاشرے پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان سے امریکہ ایسے ہی کھلواڑ کرتا رہا ہے جیسے بلی نحیف ننھے چوہے سے کھیلتی ہے اور نڈھال کر کے مسرت حاصل کرتی ہے۔
 ٹرمپ نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کیلئے کچھ نہیں کیا۔ عجیب!! 16 دسمبر 2014ء کی صبح ساڑھے 10 بجے تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ 6 دہشت گرد آرمی پبلک اسکول پشاور میں گولیاں برساتے داخل ہوئے۔ یہ سب دوسرے ممالک سے تھے۔ ان ملعونوں نے بلا تخصیص اسکول کے آڈیٹوریم میں پہنچ کر بچوں پر فائرنگ کی۔ 149 بچے اور بچیاں جان ہار گئے۔ ان کی عمریں 8 سے 18 برس تھی۔ 114 زخمی مختلف ہسپتالوں میں لے جائے گئے۔ کچھ صحت یاب تو ہوگئے لیکن عمر بھر کی معذوری مقدر بن گئی۔ یہ تاریخ کا چوتھا بڑا قتل عام تھا۔ تب فیصلہ کیا گیا کہ پاک افغان سرحد پر قائم دہشت گردوں کی کمین گاہوں کا صفایا کیا جائے۔ پاک فوج داخل ہوئی۔ امریکہ تو سرخرو ہوکر اکلوتی سپر پاور بن بیٹھا لیکن اس کا عذاب پاکستان آج بھی بھگت رہا ہے۔ جیمز میٹس نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ مجموعی طور پر پاک فوج کا ناٹو افواج سے زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ آج تک اس جنگ میں پاکستان 75 ہزار سے زیادہ انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے، 123 ارب ڈالر کا ضیاع ہوچکا ہے اور بدلے میں اس کو اس کے محسن امریکہ نے مجموعی طور پر صرف 20 ارب ڈالر دیے ہیں۔ ٹرمپ اپنے ملکیتی 30 کروڑ ڈالر مالیت کے ٹاور کی 58 ویں منزل پر اپنے پینٹ ہائوس نما گھر میں بیٹھے ہیں جہاں سے انہیں بچے، بہت نیچے گھومتے پھرتے انسان حشرات الارض کی طرح نظر آتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ وہ کچھ وقت کے لیے اپنے سودوزیاں کا حساب ترک کر کے پاکستان کے مختصر دورے پر نکل کھڑے ہوں، وہاں انہیں دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں بہنے والے انسانی خون کی باس اور آنسوئوں کی طرح زمین کے گال پر ابھرنے والی شہداء کی قبریں ملیں گی۔ انہیں زندگی سے بڑے انسان ملیں گے۔ تب ان کا تاریخ کا ادھورا مطالعہ مکمل ہوجائے گا اور وہ خجل ہوکر اپنے بیان پر نظر ثانی کرسکیں گے۔ 
 

شیئر: