Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغرب کی پرخار راہوں پر چل کر پاﺅں زخمی کرنیوالے ایشیائی دولہا ، دلہن

دردانہ پرویز۔ڈیلس
شادی ایک مقدس فریضہ ہے۔ نکاح سنت مبارکہ ہے ۔ ایک خاندان کی بنیاد ہے کہ جس میں دونوں فریق باہمی گفت و شنید کے ذریعے ایک دوسرے کے خیالات ، رہن سہن اور طرز زندگی سے مکمل آگہی کے بعد اپنی اولادوں کو اس عظیم فریضے کے لئے ایک دوسرے کی زندگی کا ساتھی بنا دیتے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان محبت و مودت کا رشتہ قائم ہوتا ہے ۔ دونوں اپنے حقوق سے مکمل آگہی رکھتے ہیںاور یوں زندگی کی گاڑی رواں دواں ہوجاتی ہے۔ یہ ہمارے اجداد کا طریق کار بھی رہا ہے ۔
یہاں تک تو معاملات بہت ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ زیادہ دور نہ بھی جائیں تو 3دہائی قبل تک اسی طرح سلسلہ چلتے تھے۔ سادگی عام تھی۔ خاندانی شرافت جانبین کی سب سے بڑی خوبی سمجھی جاتی تھی اور اولادیں بھی اس کی پاسداری کرتی تھیں لیکن وقت نے کروٹ ، بدلی، معاشرے کا چلن بدلا، فاصلے سمٹنے لگے۔ بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں نے بھی پہلے سے زیادہ زندگی کی حقیقتوں کو سمجھااور تعلیمی منازل میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا جو بلا شبہ خوش آئند بات ہے ۔ایسے میں نئی نسل کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی۔ والدین نے بھی اپنی سوچ بدلنی شروع کر دی اور جب بات زندگی کے سب سے اہم فیصلے یعنی شادی تک پہنچی تو معاملات خاندانوں، محلوں، شہروں اور ملکی سطح سے نکل کر بیرون ملک پہنچ گئے جہاں رشتے طے کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں رہا۔
خلیجی ممالک تک تو بات بن گئی لیکن جب یہ بات مغربی ممالک پہنچی تو معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے، بس یہی ہمارا آج کا موضوع ہے:
ماضی میں بھی خاندان مغربی ممالک میںجا کر آباد ہوئے اور اپنے ملکوں سے جا کر بیٹی اور بیٹے کے رشتے کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ آج بھی قائم ہے ۔ ماضی میں یہ سلسلہ خاندان اور جان پہچان کی بنیادوں پر محدود سطح پر جاری رہا تاہم مسائل اس وقت پیدا ہوئے جب اس سلسلے نے بزنس کی شکل اختیار کر لی یعنی شادی کروانے والے مراکزنے اس کار خیر کو بڑی سطح پر روشناس کرایا۔یہاں ہم ان کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں کر رہے لیکن چونکہ یہ ہماری آئندہ نسلوں کی زندگیوں کا سوال ہے اس لئے بحیثیت ذمہ داریہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم عوام الناس کے سامنے وہ حقائق ضرور لائیں جن کے بارے میں یہ مراکز بھی آگہی نہیں رکھتے۔بلا شبہ قلیل تعداد میں موجود خاندانوں کے حوالوں سے لوگوں کے تجربات اچھے ہوں گے لیکن یہاں معاملہ چند کا نہیںبلکہ لا تعداد خاندانوں کا ہے جو لا علمی کے باعث اپنے جگر گوشوں کو اچھے مستقبل کے لئے بیرون ملک روانہ کر دیتے ہیں۔ ہمارے ایشیائی ممالک کے نوجوانوں کی اکثریت ایسی ہوتی ہے جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے مغربی ممالک جاتے ہیںاور وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کی خاطر ان کے والدین ایسے رشتوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں کہ جن کے ذریعے وہاں کی شہریت کا حصول آسان ہوجائے۔ یہی وہ مو ڑ ہوتا ہے جہاں رشتہ کرانے والے مراکز انہیں نعمت دکھائی دیتے ہیں۔
آجکل سردیوں کی آمد آمد ہے اس لئے ہمارے ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز م یں کہیں نہ کہیں وہاں سے آنے والے چند رشتہ کرانے والے بھی براجمان ہوتے ہیں۔ یہ رشتہ مراکز سارا سال لوگوں سے ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کے بارے میں معلومات اپنے پاس جمع کرتے رہتے ہیںاور جب مغربی ممالک سے خاندان اپنے بیٹوں ا ور بیٹیوں کے لئے آنا شروع کرتے ہیں تو ان کے سامنے یہ رشتے رکھے جاتے ہیںاور خاندانوں کو آپس میں ملوایاجاتا ہے ۔ اس حد تک تو یہ معاملات بالکل درست ہوتے ہیں۔ آئیے او ذرا تصویر کا دوسرا رُخ بھی دیکھ لیتے ہیںجس کے باعث ہمارے ایشیائی نوجوان لڑکے لڑکیاں یا دولہا دلہن،مغرب کی پرخار ازدواجی راہوں پر چل کر پاﺅں زخمی کر بیٹھتے ہیں اور شدید مشکلات کا شکار ہوتے ہیں:
ایک معروف سماجی شخصیت کے مطابق لڑکیوں کی شادی کے حوالے سے جو بات سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اگر آپ کی بیٹی پہلی دفعہ کسی بھی قسم کے گھریلو تشددسے متعلق شکایت لے کر آتی ہے تو آپ اس کا انتہائی سنجیدگی سے نوٹس لیں کیونکہ آپ کی عدم توجہی ایک بڑے حادثے کی جانب پیشقدمی تصور کی جائے گی۔ یہ بات تو ملکی سطح پر ہے ۔ اب ایسے ممالک جو مکمل طورپر آپ کی دسترس سے باہر ہیں، وہاں کے مطابق آپ کو کیا ا حتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیںنیز آپ وہاں کے کلچر ا ور ماحول میں پروان چڑھنے والے لڑکے لڑکیوں کے بارے میں کس حد تک آگاہ ہیں، آپ کے کوئی قریبی عزیز و اقارب وہاں موجود ہیں۔ اگر آپ چند نکات کو مد نظر رکھیں تو صحیح فیصلہ کرنے میں آپ کو بے حد آسانیاں ہو سکتی ہیں۔
٭٭مغربی ممالک میں پروان چڑھنے والے بچوں کو قانونی لحاظ سے مکمل تحفظ دیا جاتا ہے لہٰذا کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کے لئے وہ والدین کے محتاج نہیں ہوتے۔ کسی بھی قسم کی رنجش جو میاں بیوی کے مابین ہو سکتی ہے ، اس کے بارے میں فریقین والدین سے معاونت نہیں لےتے۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ اکثریت ایسی ہے جو دین کے مطابق معاملات کو سلجھانے سے قاصر رہتی ہے کیونکہ والدین کی اکثریت نے ان کی پرورش اسلامی بنیادوں پر نہیں کی ہوتی اور انجام کاران کے مزاج میں عدم برداشت بہت ہوتی ہے۔ 
آنکھوں میں حسین خواب سجائے ہماری جو بیٹیاں بیرون ملک پہنچتی ہیں، انہیں وہاں یکسر مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر خاندانی نظام مستحکم ہو تو وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عدم تعاون کی بنا پر گھریلو زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیںاور وہاں کے سسٹم میں داخل نہیں ہو پاتیں یعنی کسی بھی قسم کی جاب کرنا ناممکن امر بن جاتا ہے جو کہ ایک اعلیٰ تعلیمیافتہ لڑکی کے لئے مناسب نہیں۔

شیئر: