Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی میں جرائم کی شرح میں اچانک اضافہ

کراچی (صلاح الدین حیدر) ابھی تو تحریک طالبان پاکستان کے رہنماوں کی گرفتاری اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی شدت پسندی کے واقعات اور لاہور میں شدت پسندی اور گرفتاری ہی کیا کم تھی کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی جرائم کی شرح نے لوگوں کا سکون برباد کردیا ۔ اگر 2012ءمیں 2258 قتل اور اموات کے واقعات درج ہوئے تھے تو پچھلے 2 سال تک تو امن رہا۔ لوگ آزادانہ سڑکوں پر گھومتے پھرتے رہے۔ دعوتوں اور ملاقاتوں میں اضافہ دیکھا جانے لگا ۔ ایک مرتبہ پھر قتل و غارت گری، موٹر سائیکل چھیننا، کاروں کی چوریاں اور خواتین سے پرس چھیننے جیسے جرائم سے اس شہر میں خوف و ہراس کی فضاءپیدا کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔
2008ءکے بعد جب پیپلز پارٹی کی حکومت میں آصف زرداری صدر بنے تو انہوں نے سیکولر قوتوں کو جمع کر کے جس میں عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم شامل تھیں ایک نیا اتحاد بنایا۔ انتہا پسندی کو تقریباً بریک لگ گیا۔ رینجرز اور فوج نے شہری حکومت سے مل کر آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کراچی پر امن شہر بن گیا پھر سے جرائم پیشہ کے گروہ تازہ دم ہوکرابھرنے لگے۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو 2013 اور 2016ءکے درمیان قتل و غارت گری، اغواءبرائے تاوان، کاروں کی چوری، اسٹریٹ کرائم اور موٹر سائیکل کی چھینا جھپٹی پھر سے عروج پر نظر آتی ہے۔ کراچی انتظامیہ نے چینی قو نصلیٹ پر حملہ کے بعد قرب و جوار کے علاقے میں بہت سے ریسٹورنٹ کو فوری طور پر بند کرنے کا حکم صادر فرما دیا ہے، اس لئے کہ وہاں مشکوک لوگ آسکتے ہیں ۔ 220 گز کے اندر اندر 3 غیرملکی قو نصلیٹ، کویت، چین اور روس کے موجود ہیں جن کی سیکیورٹی حکومت وقت کا فرض اولین ہے۔ یہ سارے کے سارے ریسٹورنٹ کلفٹن کے علاقے میں ہیں ساتھ ہی ڈیفنس جیسا صاف ستھرا علاقہ ہے جہاں پر مکانوں اور دکانوں کے لئے جگہیں مخصوص ہیں۔ یہاں کوئی اسکول، کوئی کاروباری دفاتر، کوئی ریسٹورنٹ نہیں کھول سکتے۔ اسی لئے اکثر و بیشتر غیر ملکی قونصلیٹ ڈیفنس میں ہی حفاظتی طور پر بہترین سمجھے جاتے ہیں۔ مسئلہ سارا یہی ہے کہ اکثر و بیشتر جرائم، ڈکیتی اور چوری کے واقعات وہی لوگ کرتے ہیں تاکہ لوگوں سے پیسے لوٹ کر ہتھیار خریدے جاسکےپھر اسلام جیسے پر امن اور سلامتی کا پیغام دینے والے مذہب کو بدنام کیا جاسکے۔ تحریک طالبان پاکستان جس کے 2 رہنما آج کل حفاظتی حصار میں ہیں اور انہیں جیل بھیج دیا گیا ۔ انہوں نے کراچی میں بھی اپنی شاخیں کھول لی ہیں، ابھی یہ گروہ اتنا منظم نہیں لیکن کل کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ مضافاتی علاقے جیسے کورنگی، گلستان جوہر، گلشن اقبال، اورنگی جہاں طالبان کی بڑی تعداد چھپی ہوئی ہے بہت زیادہ اس قسم کے جرائم کا شکار ہے کلفٹن اور ڈیفنس میں کبھی کبھار ایسا واقعات ہوتے رہے ہیں، بہرحال ڈیفنس کا اپنا نظام ہے۔ شہر کی پولیس تو ہے ہی ڈیفنس کی اپنی فورس ہے جو جرائم پیشہ لوگوں پر نظر رکھتی ہے۔ کراچی میں پھر خدشات کا اشارہ بڑھ گیا ، اللہ کرے اس پر جلد قابو پالیا جائے ورنہ غیر ملکی سفارت کار اور سرمایہ کاری خواب بن کے رہ جائیں گے۔
 

شیئر: