Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج مجھے امی بہت یاد آ رہی ہیں

ابوغانیہ ۔کراچی
2جنوری،1970ئ
آج کل مجھے اپنی امی کی وہ باتیں بہت یاد آتی ہیں جب وہ مجھے کسی بات پر ڈانٹتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ تمہیں کیا خبر ماں بننا آسان نہیں۔راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت کر کے ہی اولاد پلتی ہے۔ جس اولاد کے لئے اتنی مصیبتیں جھیلیں،اپنی جوانی جن پر قربان کی اگر وہی اپنی نہ ہوئی تو زندگی کس کام کی؟
میری شادی کو آج3ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔چند روز سے میری طبیعت بوجھل بوجھل سی رہنے لگی ہے۔جی متلاتا رہتا ہے۔میں نے اپنے شوہر سے کہا تو وہ مجھے لیڈی ڈاکٹر کے ہاں لے گئے۔اس نے کہا کہ تمہاری یہ حالت مزید 7ماہ تک رہے گی کیونکہ تمہارے ہاںایک ننھا مہمان آنے والا ہے۔اب حالت یہ ہے کہ راتوں کو نیند نہیں آتی۔سونے کی لاکھ کوشش کروں مگر ناکام رہتی ہوں۔بالآخراٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں۔پھر میرے کانوں میں امی کی آواز گونجتی سنائی دیتی ہے کہ” تمہیں کیا خبر ماں بننا آسان نہیں۔راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت کر کے ہی اولاد پلتی ہے“۔واقعی آج مجھے امی بہت یاد آتی ہیں۔
8جولائی،1970ئ
آج وہ دن بھی آگیا جب میری شخصیت تکمیل کے آخری مرحلے سے گزرنے میں بھی کامیاب ہوگئی۔مجھے اللہ کریم نے ایک چاند سا بیٹا ،شرجیل ،عطا فرمایا ۔ہم دونوں اسپتال کے ایک بیڈ پر دراز تھے۔وہ آنکھیں بند کئے سو رہا تھا اور میں اسے غور سے دیکھ رہی تھی ۔میں نے زندگی میں اپنی آنکھوں سے کسی کو اس طرح نہیں دیکھا تھا۔کسی کو دیکھ کر میرے ذہن میں ایسے خیالات اس سے پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔میری رگ رگ میں ہیجان سا بپا تھا۔میں اسے دیکھ کر شاید پلکیں جھپکنا بھی بھول چکی تھی۔اسے دیکھ کر مجھے خیال آ رہا تھا کہ یہ نہ صرف میرا ہے بلکہ میری ذات کا حصہ ہے۔اس کی رگوں میں دوڑنے والا خون میراہے۔اس کا وجود میرا مرہون منت ہے۔میں نے اس کے لئے کتنے ہی مہینے راتوں کی نیند گنوائی۔میری سوچ،میری عادات،میری خصائل،میرا رنگ،میرا روپ،میرے ناک نقش،سب کی جھلک اس میں موجود ہے۔اس کرہ ارض پر یہ واحد جان ہے جو میری قربانیوں کا ثمر بن کر میرے سامنے آئی ہے۔اسے مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا کیونکہ یہ میرا اور میں اس کی ہوں۔قدرت نے مجھے کتنا حسیں انعام دیا ۔
9ستمبر،2006ئ
آج تو میں اپنی ماں کو گھنٹوں یاد کر کے روتی رہی۔لگتا ہے کہ سینے پرکسی نے بھاری پتھر رکھ دیا ۔پہلی مرتبہ اس بوجھ کا احساس ہوا جو رونے سے کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہی جاتا ہے۔میں نے اپنی بہو کو نوکرانی سے کہتے ہوئے سنا کہ”اس بڑھیا کا کمرہ بھی صاف کر دینا۔پتہ نہیں کب مرے گی اور کب میں اور شرجیل اس کے منحوس سائے سے دور ہو سکیں گے“۔پنکی میری وہ بہو ہے جسے میں اپنے شرجیل کی پسند سے اپنے ہاتھوں بیاہ کر لائی تھی۔شوہر کے انتقال کے بعد بھی میں اور شرجیل بالکل دوستوں کی طرح رہتے تھے اور ایک دوسرے کو”بیسٹ فرینڈ“ کہتے تھے ۔بیوہ ہو نے کے بعد میری زندگی کا واحدمقصدشرجیل کو خوش دیکھنا تھا۔پھر آج میں منحوس کیسے ہوگئی؟مجھے اپنی بہو کی باتیں سن کر دنیا اندھیر لگنے لگی۔میں شرجیل کے دفتر سے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔مجھے یقین تھا کہ شرجیل میری اس اندھیر دنیا کے لئے امید کی کرن نہیں بلکہ یقین کا سورج ثابت ہوگا۔
اسے بھی پڑھئے:والد دم توڑ گئے، بیٹے کی چھٹیاں رائگاں ہونے سے بچ گئیں
حسب معمول شرجیل گھر آتے ہی بیوی کے کمرے میں چلا گیا۔آج اس نے میرے کمرے میں آنے میں کافی دیر کر دی تھی۔کافی دیر بعد وہ آیا ۔اس نے سلام کیا اور میں نے اسے گلے لگانے کے لئے ہاتھ پھیلائے۔دل چاہ رہا تھا کہ اس کے سینے سے لگ کر دھاڑیں مار مار کر رو دوں۔مگر وہ میرے پھیلے ہاتھوں کو پھیلا ہی چھوڑ کر الٹے قدموں واپس لوٹ گیا کیونکہ پنکی نے اسے آواز دی تھی۔
رات بھیگ چکی تھی۔میں کمرے میںاپنے بستر پر لیٹی چھت پر بنے نقش و نگار کو گھور رہی تھی۔آنکھوں سے گرم گرم آنسوﺅں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔آج مجھے اپنی امی بہت یاد آ رہی تھیں۔ شرجیل کمرے میں آیا اور کہنے لگا”امی جان!اس عمر میں بے کار اور تنہا رہنے سے آپ کی صحت خراب ہو سکتی ہے۔میرے ایک دوست کی ماں نے دستکاری ہوم کھول رکھا ہے۔آپ وہاں جا کر کچھ کام وغیرہ کر لیا کریںگی تو آپ کا دل بھی بہلا رہے گا اور صحت بھی ٹھیک رہے گی۔اس دستکاری ہوم میں بورڈنگ کا انتظام بھی ہے۔میں نے سوچا کہ آپ کو آنے جانے میں مشکل ہوگی اس لئے میں نے دوست کی والدہ سے کمرے کا بندوبست کرنے کے لئے بھی کہہ دیا ہے۔میںروزانہ دفتر سے واپسی پرملنے آ جایا کروں گا۔پنکی سے بھی میں نے مشورہ کیا تھا۔وہ کہہ رہی تھی کہ امی جان کی صحت کے لئے یہ ضروری ہے مگر بابا میں ڈرتی ہوں کہیں مجھ پر کوئی الزام نہ آجائے۔میں نے اسے سمجھا دیا کہ ”پاگل ہو رہی ہو۔امی کبھی ایسا سوچ ہی نہیں سکتیں۔وہ میری بیسٹ فرینڈ ہیں“۔میں نے کہا کہ ہاں شرجیل!تم سچ کہتے ہو،میں ”ایسا“کبھی نہیں سوچ سکتی تھی۔شرجیل نے میرے آنسو دیکھے تو پوچھا کہ امی!آپ رو کیوں رہی ہیں؟میں نے ان آنسوﺅں کا راز بتا دیا کہ ”آج مجھے اپنی امی بہت یاد آ رہی ہیں“۔
10ستمبر،2006ئ
آج دستکاری مرکز کے بورڈنگ ہاﺅس میں میری پہلی رات ہے۔سینے پر بھاری پتھر کی جگہ لگتا ہے کہ ناسور بن چکا ہے جو آنکھوں کے راستے آنسوﺅں کی شکل میں رِس رہا ہے۔مجھے اب زمین پر چلنے پھرنے والے زندہ لوگوں میں سے کوئی بھی یاد نہیں آتا بس امی بہت یاد آ رہی ہیں جو کہا کرتی تھیں کہ” تمہیں کیا خبر ماں بننا آسان نہیں۔راتوں کی نیند اور دن کا چین غارت کر کے ہی اولاد پلتی ہے۔ جس اولاد کے لئے اتنی مصیبتیں جھیلیں،اپنی جوانی جن پر قربان کی اگر وہی اپنی نہ ہوئی تو زندگی کس کام کی“؟
 

شیئر: