Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مبہم حکومتی پالیسیاں اور حکمت عملی

***ڈاکٹر منصور نورانی***
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بنے تقریباً 3 ماہ مکمل ہوچکے لیکن نہ اُس کی پالیسیوں کے حوالے سے اور نہ اُسکے فیصلوں سے اب تک کوئی واضح صورتحال سامنے آ پائی ہے۔تمام پالیسیاں اور حکمت عملیاں مبہم اور غیر واضح ہیں۔وہ ایک بے سمت اور بے ربط قافلے کی طرح بڑھتے جارہے ہیں۔ نہ اپنے ملکی مسائل کا پورا ادراک ہے اور نہ اُن سے نمٹنے کی صلاحیت ۔ایک ذمہ دارانہ طرز عمل ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔لوگ سمجھ رہے تھے کہ نئے نئے حکومت میں آئے ہیں کچھ دنوں میں انداز فکر تبدیل ہوجائے گا لیکن خان صاحب اور اُن کی پوری ٹیم ابھی تک یہ یقین کرنے کو تیار ہی نہیں کہ وہ حکومت میں آچکے ہیں ۔ اُن کا طریقہ کار اور طرز عمل ہنوز اپوزیشن والا ہی ہے۔وزیراعظم غیر ملکی دورے پر بھی جاتے ہیں تو چاہے وہ گارڈآف اونرز کا معائنہ کررہے ہوں یا پھر وہاں کے حکمرانوں سے میٹنگز کررہے ہوںوہ اُسی غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ طریقہ کار کامظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جو وہ اپنے یہاںکرتے رہتے ہیں۔دوسرے ملکوں کی بے شمار خوبیاں بیان کرکے اور اپنے ہی ملک کے سو سو برائیاں گنواکے نجانے وہ اُن سے کس طرح کی ہمدردیاں سمیٹ لینا چاہتے ہیں۔سوائے سعودی عرب کے ابھی تک کسی اور ملک نے اُنہیں اِس حق گوئی اورراست بازی کے عوض کچھ بھی عطا نہیں کیابلکہ سبھی نے وعدوں اور یقین دہانیوں کے وظیفے سنا کے واپس لوٹا دیا۔اب کہا جارہا ہے کہ غیر ملکیوں سے مالی معاملات پر ہونے والے سمجھوتے اورمعاہدے تشہیر نہیں کئے جاسکتے ۔ سعودی عرب کے اپنے دورے سے واپس آکرکامیابیوں اور خوش خبریوں کے ایسے ڈھول بجائے گئے کہ وزیراعظم نے قوم کے سامنے ریڈیو اور ٹی وی پر ایک خطاب بھی کرڈالا۔قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ حکومت کی کونسی بات درست ہے۔امداد اور بھیک مل جانے کا زور و شور کیساتھ پرچار کرنا یا پھر اُسے خفیہ اور پوشیدہ رکھنا۔کرپشن اور بد عنوانیوں کی اپنے منہ پرلگی کالک دوسروں کو دکھادکھاکریہ بات تو طے ہوچکی ہے کہ اِس طرح کوئی بھی ہم پررحم کھانے کو تیار نہیں بلکہ اِس طرح توہم خود اپنی رسوائی اور جگ ہنسائی کا سامان پیدا کررہے ہوتے ہیں۔ کرپشن کس ملک میں نہیں ہوتی۔وزیراعظم جہاں جہاں گئے سبھی ملکوں میں کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے قصے بہت عام ہیں ۔سبھی اُنکی روک تھام اور تدارک کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں کرپشن نہیں ہوتی لہذا اپنے منہ پر لگی کالک کو صاف کرنے کی بجائے اُسے بھیک اور امداد حاصل کرنے کا ذریعہ بنالینا کسی طور باوقار اور غیرت مند قوم کے شایان شان نہیں ۔اِس طرح تو ہم خود اپنی ہی توہین اوررسوائی کا ذریعہ بن رہے ہوتے ہیں۔ خان صاحب کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا میں کوئی بھی ہم پر بلاوجہ رحم کھانے کو تیار نہیں ۔ہمارے اپنے لوگ ہی جب ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تو پھر غیر ملکی کیونکر رحم کھا ئے۔دیامربھاشا ڈیم کیلئے خان صاحب نے اپنے تارکین وطن لوگوں سے ریڈیو اور ٹی وی پر آکرامداد کی اپیل کی تھی ۔ اِس مقصد کیلئے ایک فنڈ بھی قائم کیاتھامگر اُسکا کیا نتیجہ نکلا وہ قوم کو بتانے سے گریزاں ہیں۔اگر پردیس میں بیٹھے لوگوں نے اُنکی بات پر دلوں جان سے اعتبار کیاہوتا تو آج ہمارے چیف جسٹس کو فنڈریزنگ کیلئے بنفس نفیس خود غیر ملکی دوروں پر جانا نہیں پڑتا۔خان صاحب کو اب احساس ہوجانا چاہئے کہ ڈیم بنانے میں اُنہیں اگر ہمارے چیف جسٹس صاحب کی دلچسپی اور مد د حاصل نہ ہوتی توشایدوہ اِس کام کو آگے بڑھا نہیں پاتے۔
ملکی مالی حالات کس نہج پر ہیں ہمارے حکمرانوں کو شایداُس کا صحیح طور سے ادراک ہی نہیں۔ چائنہ کے دورے کے بعد قوم کو یہ نوید سنائی گئی کہ قرضوں کی قسطوں کی ادائیگی کے حوالے سے اُمنڈ آنے والا بحران فوری طور پر ٹل گیا  حالانکہ حقائق بتا رہے ہیں کہ ابھی تک ملکی خزانے میں صرف سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر ہی آئے ہیں ۔ زرمبادلہ کے ذخائر دن بدن نہ صرف کم ہوتے جارہے ہیں بلکہ خطرنا ک حدوں کو چھونے لگے ہیں۔فوری طور پر اگر اِس کا حل نہ ڈھونڈا گیا تو خدشہ ہے کہ پھر  آئی ایم ایف کے سخط ترین شرائط ہی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے تمام قومی منصوبوں پر سمجھوتہ یعنی یوٹرن لینا ہی پڑے گا۔اِن تمام منصوبوں میں سب سے اہم اقتصادی کوریڈور کاوہ شہرت یافتہ منصوبہ ہے جوعالمی طاقتوں کی نظروں میں ابتدا ہی سے کھٹک رہا ہے اور جسے وہ سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔مرتا کیانہ کرتا کی مصداق پی ٹی آئی کی حکومت سے کوئی بعید نہیں کہ وہ اِس معاملے میں بھی یوٹرن لیکر اِسے حالات و واقعات کے پیش نظر علم وفہم اوردانشمندی کا بصیرت آموز فیصلہ قرار دیکررول بیک کرڈالے۔
پی ٹی آئی حکومت کو شومئی قسمت سے درپردہ ہمارے کئی اداروں کی بھر پور سپورٹ اورمدد حاصل ہے۔ اِس کے باوجودوہ عملی طور پر کارکردگی کے جوہر نہیں دکھا رہی جو اُسے دکھانا چاہئے تھا۔قانون سازی کے حوالے سے ابھی تک کوئی قانون پارلیمنٹ کے فورم پر لایا ہی نہیں گیا۔حکومت خود اِس اہم کام میں سستی اور کاہلی کا مظاہر ہ کررہی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو یقینا غلط اور بے جا نہیں ہوگا کہ حکومت کو کام کو سنجیدہ لے ہی نہیںرہی ۔ وہ تو صرف اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائیوں میں الجھی ہوئی ہے۔وہ پارلیمنٹ کو اُسی اسٹائیل اور انداز میں چلانا چاہتی ہے جس انداز سے وہ 126دنوں تک اسلام آباد میں ڈی چوک پر کھڑی تھی۔ ایک دوسرے کو چو ر اورڈاکو کہہ کر اور بے بنیادالزام تراشی اوردشنام طرازی کے ذریعے پارلیمنٹ کا وقت نہ صرف ضائع کیا جارہے ہے بلکہ اُسے قوم کی نظروں میں غیر معتبر اور بدنام بھی کیاجارہا ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ اِس طرح جارحانہ انداز اختیار کرکے وہ شاید اپوزیشن کو زیرکرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔اپوزیشن تو خود نیب کے زیر عتاب ہے ۔اُسے اتنی مہلت ہی کہاں کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دے سکے۔جو رکن پارلیمنٹ اِس خیال سے آگے بڑھنے لگتا ہے نیب فوراً اُسے گرفتار کرلیتی ہے یا پھرکسی مشکوک معاملے میں طلب کرلیتی ہے۔جتنی آسانیاں اور سہولیتں پی ٹی آئی حکومت کو مل رہی ہیں بقول زرداری صاحب کے یہ اگر اُنہیں ملتیں تو وہ پاکستان کو کہاں سے کہاں پہنچادیتے۔قطع نظر اِس کے کہ زرداری صاحب کیا کہہ رہے ہیں لیکن یہ بار اظہر من الشمس ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو ہمارے تمام اداروں کے درپردہ بھر پور حمایت اور مد د حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ٹی ایل پی کے خادم حسین رضوی صاحب بھی گرفتار ہوگئے اور کوئی ہنگامہ بھی برپانہیں ہوا۔قوم حیرت زدہ ہے کہ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے کیسے ممکن ہوگیا۔ایک وہ زمانہ تھا جب اسلام آباد اور راولپنڈی کے لوگ 22دنوں تک فیض آباد کے دھرنے کی وجہ سے یرغمال بنے ہوئے تھے اور کوئی پرسان حال نہ تھا۔شاید خاقان عباسی کی حکومت نے جب قانون پر عملدرآمد کرنے والوں سے مدد کی درخواست کی توکہاگیا کہ یہ تو ہمارے اپنے لوگ ہیں ہم اِن کے خلاف کیسے کوئی کاروائی کرسکتے ہیں۔پھر متعلقا فریقوں کے مابین ایک معاہدہ کیا جاتاہے جس کی ساری کی ساری شقیں صرف ایک فریق کے حق میں تحریر کی جاتی ہیںاور ایک وفاقی وزیر کو استعفیٰ دینے پر مجبور بھی کیاجاتا ہے۔ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو نہ صرف باعزت طور پر بری کردیا جاتا ہے بلکہ اُن کے خلاف تمام مقدمات بھی واپس لے لئے جاتے ہیں۔جب کہ آج اُسی فریق کو ایک نئے احتجاج کی کال کے الزام میں پس زنداں بھی کردیا گیا ۔ اُس کے حمایتی کارکن سخت عذاب اور مشکلات سے دوچار بھی کردئیے گئے ۔اداروں کی اتنی مہربانیوں اور کرم نوازیوں کے باوجود خان صاحب کی حکومت اگرکوئی کارکردگی دکھاپائے تو قصور خان صاحب کی اہلیت اور صلاحیتوں کا ہی کہلائے گانہ کہ اپوزیشن کا جس نے اُنہیںکارکردگی دکھانے سے نہیں روکا۔
 

شیئر: