Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلند وبانگ دعوے

***ڈاکٹر منصورنورانی***
قطع نظر اِس کے کہ موجودحکومت نے اپنے بلند وبانگ دعوؤں کے برعکس معاشی مشکلات سے نمٹنے کیلئے دیگر ذرائع کی بجائے صرف سہل اور آسان طریقہ کار یعنی امداد اور قرض لینے پر ہی اکتفاکیوں کیا،یہ بات اُن پاکستانیوں کیلئے انتہائی دکھ اور افسوس کی ہے جو اِس حکومت کو اپنی سابقہ تمام حکومتوں کے مقابلے میں ایک خوددار ،غیور اورغیرت مند سمجھ بیٹھے تھے۔اُنہیں یہ جان کر اور بھی دکھ ہوا کہ اِن سے پہلی حکومتیں تو قرض لیتے ہوئے کچھ نہ کچھ شرمندگی اورندامت کا اظہار بھی کیا کرتی تھیں لیکن خان صاحب کی یہ واحد حکومت ہے جو قرض لینے پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔وہ قرض لینے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی تصور کئے بیٹھی ہے حالانکہ دیکھا جائے تو عالمی اور سامراجی قوتوں کیلئے پاکستان کو جو سی پیک منصوبے کی وجہ سے ایک زبردست معاشی و اقتصادی قوت بننے جارہا تھا اور اِن طاقتوں کے چنگل سے نکلاجارہا تھا، اُسے ایک بار پھر قرضوں اورامداد کے دلدل میں پھنسا کر اپنا مقصد حاصل کرنا ہی اُنکی بہت بڑی کامیابی ہے۔خان صاحب جو آج قرضوں کے حصول کو اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیںاور قوم کو ایسی مزید کامیابیوں کی نوید بھی سنا رہے ہیں،اگر غور کریں تو اُنہیں احساس ہوگا کہ ملک وقوم کو مزید قرضوں میں جکڑ دینا ایسی کوئی بڑی کامیابی اورکامرانی نہیں کہ جس پر اتنے شادیانے بجائے جائیں۔ یہ تو ہمارے دشمنوں کی ہی خواہشوں اورسازشی ایجنڈے پر مکمل عملداری ہے۔ہم جتنا قرضوں میں ڈوبتے جائیں گے ،اپنی آزادی اور خودمختاری پر سودااور سمجھوتہ کرتے جائیں گے۔آج سے پہلے خود خان صاحب کا بھی یہی مؤقف تھا۔ وہ اپنی ہر تقریر اور اخباری بیانوں میںاسی بات کا تذکرہ کیاکرتے تھے اور قوم نے بھی یہی سمجھ کر اُنہیں حکمرانی کے مینڈیٹ سے نوازا تھا کہ خان صاحب ماضی کے  حکمرانوں کے برعکس کوئی نئی سوچ اور نیاوژن لیکراُسے ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ آزادی اور خودمختاری کی منزلوں پر پہنچائیں گے۔
ملکی خزانے کے خالی ہونے کا رونا توبر سراقتدار آنے والی ہماری ہر نئی حکومت ہی رویاکرتی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنا واویلااور آہ و بکا اِس سے پہلے کسی اور حکومت نے نہیں مچایا تھاجبکہ ماضی کی کئی حکومتوں کو خزانے کے خالی ہونے کے ساتھ ساتھ کئی گمبھیر مسائل کا بھی سامنا رہا ہے۔2013ء میں برسراقتدار آنے والی نواز حکومت کو زرداری کی 5 سالہ حکومت کے بعد جن مصائب اور مشکلات کا سامنا تھا،اگر آج خان صاحب کو بھی وہ درپیش ہوتیں تو نجانے وہ کیا کربیٹھتے۔ایک طرف بجلی اور توانائی کا شدید بحران کہ16,16 گھنٹے ملک میں اندھیروں کا راج تھا۔کوئی صنعت اور کوئی کارخانہ اپنی پوری استطاعت کو بروئے کار لاہی نہیں پارہاتھا۔ دوسری طرف ملک بھر میں خود کش حملہ آوروں اوردہشت گردوں کاراج تھا۔ کوئی شہر اور قریہ محفوظ نہیں تھا۔ہزاروں بے گناہ اور معصوم لوگ مارے جارہے تھے۔کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ کراچی شہر اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا تھا۔خان صاحب کو شکر کرنا چاہئے کہ اُنہیں حکمرانی کیلئے ایسے حالات نہیں ملے۔وہ اگر میاں صاحب کو اُن تمام مشکلات سے نکل کر ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا کریڈٹ نہیں دے سکتے تو کم از کم دبے لفظوں میں اُس کااعتراف تو کریں۔میاں صاحب کی حکومت نے اگر کچھ قرضے لئے تو اُن کا استعمال بھی ہمیں واضح طور پر ملکی منصوبوں میں دکھائی دیتا ہے۔یہ بجلی کا بحران کوئی ایسے ہی مفت میں حل نہیں ہوگیا ۔توانائی کے بحران کے حل کیلئے جو کارخانے لگائے گئے اُن پر یقینا کوئی رقم خرچ ہوئی ہوگی۔اِسکے علاوہ ملک بھر میں سڑکوں اور شاہراہوں کے نئے تعمیراورنئے انفرااسٹرکچر کا قیام کوئی ایسے ہی کسی کی پھونک مارنے سے نہیں ممکن ہوپایا۔ اِن سارے منصوبوں پر یقیناخطیر رقم خرچ ہوئی ہے۔خود خان صاحب کے اپنے صوبے" کے پی کے" میں میٹرو بس منصوبے کا جو حال ہے، وہ ساری صورتحال کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ اِس کے علاوہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشت گردی کے آسیب سے نمٹنے کیلئے سابقہ نواز حکومت کو ضرب عضب آپریشن کیلئے بھی اربوں روپے خرچ کرنا پڑے تھے۔ اگر دیانتداری سے اِن رقوم کا آڈٹ کرایا جائے تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔
حکمرانی کرنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ۔الزام تراشی او ر دشنام طرازی کرنا سب سے آسان کام ہوا کرتا ہے۔کسی انسان کی قابلیت اور لیاقت کاپتہ اُسی وقت چلتا ہے جب اُسے پاکستان جیسے مشکل ترین ملک کی حکمرانی سونپ دی جائے۔خان صاحب کا اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔اِس سے پہلے تو وہ اپوزیشن اپوزیشن والا کھیل ہی کھیل رہے تھے۔اپنی 22 سالہ سیاست کو جسے وہ فخرو غرور کے ساتھ ایک زبردست جدوجہد کا نام دیا کرتے ہیں ،وہ ساری کی ساری اپوزیشن والی سیاست پر ہی مبنی ہے۔کسی شخص کی دیانتداری اورپاکبازی کے سارے دعوؤں کی حقیقت تب ہی کھل کرسامنے آتی ہے جب اُسے اقتدار و اختیار کے منصب پر فائز کردیا جائے۔اب اُسکے پاس کام نہ کرنے کا کوئی معقول بہانہ نہیں ہوتا۔خان صاحب کی اب تک کی کارکردگی سے قطعاً یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ اب حکمراں بن چکے ہیں۔ اُن کی سیاست ابھی تک ڈی چوک کے دھرنے سے باہر نہیں نکل پائی۔اُن کااندازِ سیاست ابھی تک حکمرانی کے اچھے طور طریقوں اور سوچ و فکرکی عظمتوں کو نہیں چھو پایا ۔وہ دھمکیوں او ر بھڑکیوں کی سیاست سے خود کو ابھی تک باہر نہیں نکال پائے ۔اُنہیں ابھی تک یہ پتہ نہیں کہ حکمرانوں کا اصل کیا ہوا کرتا ہے۔وہ ریڈیو اور ٹی وی پرقوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ اب ایک ذمہ دار ریاست کے باعزت وزیراعظم بن چکے ہیں۔دنیا اُن کے اِس خطاب کو براہ راست دیکھ بھی رہی ہے اور سن بھی رہی ہے۔ یہ اپوزیشن کو دھمکیاں دینے کا ٹاسک اب انہیں کسی اور کودے دینا چاہئے۔اُن کی زبان سے نکلنے والے ایسے تمام الفاظ اور جملے وزیراعظم کے اعلیٰ منصب اورعہدے سے میل نہیں کھاتے۔
خان صاحب جب ملکی قرضوں سے متعلق اعداد و شمار قوم کے سامنے رکھتے ہیں تواُس میں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اُنہیں انتہائی گمبھیر اور خوفناک بنا کر پیش کرتے ہیں کہ فلاں دور میں ہمارے ملک پر اتنے ارب ڈالرز کا قرضہ تھا اور آج اتنے ہزار ارب کا ہوگیالیکن وہ اصل حقائق سے نظریں چرا کر قوم کے سامنے ایک غلط اورمبہم تصویر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ 70 کی دہائی میں روزمرہ کی اشیا کس دام ملا کرتی تھیں اور آج اُن کی قیمتیں کہاں پہنچ چکی ہیں۔ اُن دنوںسونا 175روپے تولہ ملاکرتا تھا آج وہی ایک تولہ سونا تقریبا 60ہزار روپے کا ہوچکا ہے۔ایک ڈالردو ڈھائی روپے کا ہواکرتا تھا آج 2018میں خان صاحب کے برسراقتدار آجانے کے بعد وہ 134روپے کا ہوچکا ہے۔اسی تناسب سے ہر چیز آج دنیا بھر میں مہنگی ہوچکی ہے۔خان صاحب آج اپنی مالی مشکلات پر قابو پانے کیلئے جس طرح تیزی سے مزید قرض لیتے جارہے ہیں، کیا وہ خود اپنی ایسی دانشمندانہ حکمت عملیوں سے قوم کو مزید گہر ی کھائی میں نہیں ڈھکیل رہے ۔اُنہوں نے تو لوٹا ہوا پیسہ واپس لانے کی باتیں کی تھیں۔کسی سے بھیک نہ مانگنے کے دعوے کئے تھے۔اقتدار ملتے ہی سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔آج وہ ہمارے لوگوں کو یہ بتانے سے گریزاں ہے کہ اِس ملک میں پیدا ہونے والا ہر نیا بچہ اپنی پیدائش کے پہلے دن ہی سے کتنے ڈالرز کا مقروض ہے۔
 

شیئر: