Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا جمعہ کو ’’بلیک ڈے‘‘ کہا جاسکتا ہے ؟

***ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض***
نومبر کے آخری جمعرات میں یوم شکر انہ (امریکہ کا ایک قومی تہوار) منانے کے بعد دوسرے روز جمعہ کو امریکہ وبعض مغربی ممالک میں بلیک ڈے کے نام سے منایا جاتا ہے۔1961ء سے اس کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ عید شکرانہ (امریکہ کا ایک قومی تہوار) کے بعد آنے والے جمعہ کو امریکہ کے شہر فلاڈیلفیا میں بہت زیادہ ٹریفک ہونے کی وجہ سے اس دن کو ٹریفک پولس نے بلیک ڈے سے موسوم کیا۔ اب ہر سال نومبر کے آخری جمعہ میں شاپنگ سینٹروں میں بڑے بڑے آفر لگائے جاتے ہیں اور مغربی ممالک کے لوگ اِس دن سے اپنے مذہبی تہوار ’’کرسمس‘‘ کے لیے شاپنگ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ امریکہ میں 2005ء سے یہ دن خریداری کے اعتبار سے سال کا سب سے زیادہ مصروف دن بنتا جارہا ہے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں اس جمعہ کو White Friday سے موسوم کرنا چاہئے کیونکہ وہاں کے تاجروں کو اربوں کھربوں ڈالر کا فائدہ اسی دن ہوتا ہے۔ مغربی لوگوں کا اس جمعہ کو بلیک ڈے سے موسوم کرنے سے اسلام میں جمعہ کے مقام پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ شریعت اسلامیہ میں قیامت تک اس دن کو تمام دنوں کا سردار قرار دیا گیاہے، مگر افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی ہر ادا مشرقی ممالک کو بھلی معلوم ہوتی ہے چنانچہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے بعض ہمارے بھائی بھی نومبر کے آخری جمعہ کو بلیک ڈے سے موسوم کردیتے ہیںحالانکہ اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن کو تمام دنوں پر فوقیت دی ہے چنانچہ ہفتہ کے تمام ایام میں صرف جمعہ کے نام سے ہی قرآن کریم میں سورۃ نازل ہوئی ہے جس کی رہتی دنیا تک تلاوت ہوتی رہے گی۔ ان شاء اللہ۔ 
نبی اکرم نے جمعہ کے دن کو تمام دنوں سے افضل قرار دیا۔ اسلام نے جمعہ کے دن کو ہفتہ کی عید قرار دیا چنانچہ نمازِ جمعہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اسی دن پیدا کیا، اسی دن اُن کو زمین پر اتارا اور اسی دن انہیں موت دی۔ اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی اللہ سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی۔ جمعہ وہ دن ہے جس کے متعلق رحمۃ للعالمین نے فرمایا: جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، جو آدمی جمعہ کے روز مجھ پر درود بھیجتا ہے وہ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
جس جمعہ کے افضل، بہتر اور بابرکت ہونے کے متعلق قرآن وحدیث میں واضح دلائل موجود ہیں تو وہ کیسے بلیک ڈے ہوسکتا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جمعہ کے متعلق چند سطریں تحریر کررہا ہوں تاکہ مسلم نوجوان مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر کسی بھی جمعہ کو بلیک ڈے سے موسوم کرنے کی غلطی نہ کریں۔
جمعہ کا نام جمعہ کیوں رکھا گیا:
اس کے مختلف اسباب ذکر کئے جاتے ہیں:
٭  جمعہ جمع سے ماخوذ ہے جس کے معنیٰ ہیں جمع ہونا۔ کیونکہ مسلمان اس دن بڑی مساجد میں جمع ہوتے ہیںاور امت مسلمہ کے اجتماعات ہوتے ہیں، اس لئے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔
٭  6 دن میں اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان اور تمام مخلوق کو پیدا فرمایا۔ جمعہ کے دن مخلوقات کی تخلیق مکمل ہوئی یعنی ساری مخلوق اس دن جمع ہوگئی اس لئے اس دن کو جمعہ کہا جاتا ہے۔
٭  جمعہ کے دن ہی حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے، یعنی ان کو اس دن جمع کیا گیا۔
جمعہ کے دن کی اہمیت کے متعلق چند احادیث:
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’ جمعہ کا دن سارے دنوں کا سردار ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاںسارے دنوں میں سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک عید الاضحی اور عید الفطر کے دن سے بھی زیادہ مرتبہ والا ہے۔ اس دن کی5 باتیں خاص ہیں: ٭   اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا ٭  اسی دن ان کو زمین پر اتارا٭  اسی دن ان کو موت دی٭  اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو چیز بھی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں بشرطیکہ کسی حرام چیز کا سوال نہ کرے٭  اور اسی دن قیامت قائم ہوگی۔ تمام مقرب فرشتے، آسمان، زمین، ہوائیں، پہاڑ، سمندر سب جمعہ کے دن سے گھبراتے ہیں کہ کہیں قیامت قائم نہ ہوجائے اس لئے کہ قیامت جمعہ کے دن ہی آئے گی۔‘‘(ابن ماجہ) ۔
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
’’سورج کے طلوع وغروب والے دنوں میں کوئی بھی دن جمعہ کے دن سے افضل نہیں(یعنی جمعہ کا دن تمام دنوں سے افضل ہے)۔‘‘ (صحیح ابن حبان)۔
رسول اللہ نے ایک مرتبہ جمعہ کے دن ارشاد فرمایا: 
’’مسلمانو! اللہ تعالیٰ نے اس دن کو تمہارے لئے عید کا دن بنایا ہے لہذا اس دن غسل کیا کرو اور مسواک کیا کرو۔‘‘ (طبرانی، مجمع الزوائد)۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ہفتہ کی عید ہے۔ 
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’ اللہ کے نزدیک سب سے افضل نماز جمعہ کے دن فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ ‘‘(طبرانی ، بزار)۔
جہنم کی آگ روزانہ دہکائی جاتی ہے مگر جمعہ کے دن اس کی عظمت اور خاص اہمیت وفضیلت کی وجہ سے جہنم کی آگ نہیں دہکائی جاتی (زاد المعاد)۔
  جمعہ کے دن قبولیت  والی گھڑی کی تعیین  :
رسول اللہ نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا:
’’ اس میں ایک گھڑی ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان نماز پڑھے، اور اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو عنایت فرمادیتا ہے (اور ہاتھ کے اشارے سے آپ نے واضح فرمایا کہ وہ ساعت مختصر سی ہے)۔‘‘ (بخاری)۔
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
’’وہ گھڑی خطبہ شروع ہونے سے لے کر نماز کے ختم ہونے تک کا درمیانی وقت ہے۔‘‘ (مسلم)۔
ً رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
’’جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے کہ مسلمان بندہ جو مانگتا ہے، اللہ اس کو ضرور عطا فرماتے ہیں، اور وہ گھڑی عصر کے بعد ہوتی ہے۔‘‘ (مسند احمد)۔
مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں جمعہ کے دن قبولیت والی گھڑی کے متعلق علماء نے 2 وقتوں کی تحدید کی ہے: (۱) دونوں خطبوں کا درمیانی وقت، جب امام منبر پر کچھ لمحات کیلئے بیٹھتا ہے (۲) غروب آفتاب سے کچھ وقت قبل۔
نماز ِجمعہ کی فضیلت:
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:
’’ پانچوں نمازیں، جمعہ کی نماز پچھلے جمعہ تک اور رمضان کے روزے پچھلے رمضان تک درمیانی اوقات کے گناہوں کیلئے کفارہ ہیں جبکہ ان اعمال کو کرنے والا بڑے گناہوں سے بچے۔ ‘‘(مسلم)۔
یعنی چھوٹے گناہوں کی معافی ہوجاتی ہے۔
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
’’جو شخص اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر جمعہ کی نماز کے لئے آتا ہے، خوب دھیان سے خطبہ سنتا ہے اور خطبہ کے دوران خاموش رہتا ہے تو اس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک، اور مزید تین دن کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (مسلم)۔
جمعہ کی نماز کیلئے مسجد جلدی پہنچنا:
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
’’جو شخص جمعہ کے دن جنابت کے غسل کی طرح غسل کرتا ہے یعنی اہتمام کے ساتھ، پھر پہلی فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے اللہ کی خوشنودی کیلئے اونٹنی قربان کی۔ جو دوسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے گائے قربان کی۔ جو تیسری فرصت میں مسجد جاتا ہے گویا اس نے مینڈھا قربان کیا ۔ جو چوتھی فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے مرغی قربان کی۔جو پانچویں فرصت میں جاتا ہے گویا اس نے انڈے سے اللہ کی خوشنودی حاصل کی۔ پھر جب امام خطبہ کیلئے نکل آتا ہے تو فرشتے خطبہ میں شریک ہوکر خطبہ سننے لگتے ہیں۔‘‘(بخاری ، مسلم) ۔
یہ فرصت(گھڑی) کس وقت سے شروع ہوتی ہے، علماء کی چند آراء ہیں مگر خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حتی الامکان مسجد جلدی پہنچیں۔ اگر زیادہ جلدی نہ جاسکیں تو کم از کم خطبہ شروع ہونے سے کچھ وقت قبل ضرور مسجد پہنچ جائیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 
’’جب جمعہ کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے ہر دروازے پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ پہلے آنے والے کا نام پہلے، اس کے بعد آنے والے کا نام اس کے بعد لکھتے ہیں(اسی طرح آنے والوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب سے لکھتے رہتے ہیں)۔ جب امام خطبہ دینے کیلئے آتا ہے تو فرشتے اپنے رجسٹر (جن میں آنے والوں کے نام لکھے گئے ہیں) بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔‘‘ (مسلم) ۔
خطبۂ جمعہ:
جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ نماز سے قبل 2 خطبے دیئے جائیں کیونکہ نبی اکرم نے ہمیشہ جمعہ کے دن2 خطبے دیئے۔ دونوں خطبوں کے درمیان خطیب کا بیٹھنا بھی سنت ہے (مسلم) ۔
جمعہ کی نماز کا حکم:
جمعہ کی نماز ہر اُس مسلمان، صحت مند، عاقل، بالغ مردکیلئے ضروری ہے جو کسی شہر یا ایسے علاقے میں مقیم ہو جہاں روز مرہ کی ضروریات مہیّا ہوں۔ معلوم ہوا کہ عورتوں، بچوں، مسافر اور مریض کیلئے جمعہ کی نماز ضروری نہیں البتہ عورتیں، بچے، مسافر اور مریض اگر
 جمعہ کی نماز میں حاضر ہوجائیں تو نماز ادا ہوجائے گی ورنہ ان حضرات کو جمعہ کی نماز کی جگہ ظہر کی نماز ادا کرنی ہوگی۔
اگر آپ صحراء میں ہیں جہاں کوئی نہیں، یا ہوائی جہاز میں سوار ہیں تو آپ ظہر کی نماز ادا فرمالیں۔ نماز جمعہ کی2رکعات فرض ہیں، جس کیلئے جماعت کی نماز شرط ہے۔ جمعہ کی دونوں رکعات میں جہری قرأت ضروری ہے۔ نماز جمعہ میں سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ، یا سورۃ الجمعہ اور سورۃ المنافقون کی تلاوت کرنا مسنون ہے۔
غور فرمائیں کہ اتنی فضیلتوں وبرکتوں والا دن بلیک ڈے کیسے ہوسکتاہے؟
 
 

شیئر: