Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

100دن کی کارکردگی،کچھ تو بہتر ہوا

***احمد آزاد ***
عمران خان کی 100دن کی کارکردگی ایک طرف اور کرتارپور راہداری کھولنے کا امیدافزا اور جراتمندانہ اقدام ایک طرف۔اگرچہ ہندوستان سے پاکستان کے تعلقات قدر ے تلخ اور حوصلہ شکن ہیں اور جس دن پاکستانی وزیراعظم نے کرتار پور راہداری کا افتتاح کیا تھا اس دن بھی جموں و کشمیر میں ہندوستانی فوج نے کشمیریوں پر ظلم و ستم کیا تھا لیکن پاکستان نے ایک بار پھر اقوام عالم کے سامنے ثابت کردیا ہے کہ پاکستان امن عالم کا خواہاں ہے اور اپنے سارے جملہ مسائل کاحل مذاکرات کی میز پر چاہتا ہے۔ 
بہرحال اگرچہ موجودہ حکومت اپنے ہی مقررکردہ اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائی لیکن ایک سمت متعین کردی ہے جس پر چلتے ہوئے آئندہ کے حکومتی ماہ وسال اپنے اہداف پورے کرسکیں گے ۔گزشتہ حکومتی ادوار میں سے چند ایک ہی ایسے گزرے ہیں جو عوام الناس کے مسائل سمجھتے تھے اور اس کے تدارک کے لیے عملی کوششوں میں مصروف بھی نظر آتے ہیں جن میں سب سے اوپر نام ذوالفقار بھٹو کا ہے ۔اگرچہ انہوں نے انتخابات سے قبل کوئی بھی ایسا ایجنڈا عوام کے سامنے نہیں رکھا تھا لیکن جس طرح سے اپنے دورحکومت کے پہلے چند ماہ میں کامیابیاں سمیٹیں انہیں نا سراہنا تاریخ کے ساتھ زیادتی کے سوا کچھ نہ ہوگا ۔ان کے بعد ان کی پارٹی کا کیا ہوا اور اس نے کس قدر غریب کی مدد وحمایت کی اس پر پھرکبھی سہی!
ان 100دنوں میں موجودہ حکومت نے ڈچ حکومت پر دبائو ڈالا اور بار بار احتجاج کیا جس کے بعد 30اگست کو ڈچ حکومت نے نبی کریم کے حوالے سے ہونے والا گستاخانہ مقابلہ منسوخ کردیا جسے عالمی سطح پر پذیرائی ملی ۔معاشی عدم استحکام کے مقابلے کے لیے آئی ایم ایف کی بجائے پہلی بار کسی وزیراعظم نے دوست ممالک سے تعاون لیاجس کے نتیجے میں سعودی عرب،چین،متحدہ عرب امارات اور ملائیشیا جیسے دوست ممالک نے حق دوستی اداکرتے ہوئے پاکستان کے خسارے کو کم سے کم کردیا ہے(اگرچہ عمران خان اپنی تقریروں میں اِس طرف اور اُس طرف جانے سے بغاوت کرچکے تھے )۔منی لانڈرنگ روکنے کے عملی اقدامات شروع ہوئے توفالودے والوں،طالب علموں ،سرکاری ملازمین،ڈرائیوروں،چوکیداروں ،دھوبی و رکشہ ڈرائیوروں کے بینک اکائونٹس میں سے اربوں نکلنے شروع ہوگئے ۔تحریک انصاف کی حکومت نے لوٹی ہوئی دولت واپس ملک میں لانے کے لیے سوئٹزرلینڈ سمیت26ممالک سے معاہدے کیے ہیں۔ایف اے ٹی ایف کوکسی حد تک پاکستانی حکومت مطمئن کرسکی ہے جس کے بعد 6ماہ کا مزید وقت مل چکا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ اپریل2019ء میں پاکستان گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔ 11 ارب ڈالر کا سراغ لگایا گیا جوغیر قانونی طریقے سے دوسرے ممالک منتقل کیے گئے ۔ کئی سالوں سے قبضہ شدہ حکومتی زمینیںواگذار کروائی گئیں،تجاوزات کے خلاف کامیاب آپریشن کیے گئے، بجلی چوروں کے خلاف اقدامات کیے جارہے ہیں اور بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ساتھ ضلعی منتظمین کو جوڑ کر ایک ٹیم بنائی گئی ہے جو کہ اس سارے عمل کو دیکھتی ہے ۔ہائوسنگ سوسائٹی کے حوالے سے رجسٹریشن شروع کردی گئی ہے ۔جنوبی پنجاب کے حوالے سے ابھی تک صرف بیانات کی حد تک کام کیا گیا ہے۔وزیرخزانہ اسد عمرنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماہانہ 2 ارب ڈالرکا بیرونی خسارہ کم ہوکر ایک ارب ڈالر رہ گیا ہے ۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے بھی اسی تقریب میں نہ صرف اپنی 100دن کی کارکردگی پیش کی بلکہ اگلے 5 برس کے لیے تحریک انصاف کی حکومتی خارجہ پالیسی کے خدوخال بھی واضح کیے گئے جن میں امریکہ سے تعلقات میں بہتری، افغانستان میں اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات اور امن مذاکرات کے لیے بھرپور تعاون کی یقین دہانی اور ہند کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی بات کی گئی ۔جو کچھ تحریک انصاف کی طرف سے حکومت میں آنے سے قبل کہا جارہا تھا کہ100دن میں ہم یہ کردیں گے ، وہ کردیں گے اور پاکستان کو اس سطح پر لے جائیں گے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسا کہنا آسان ہوتا ہے اور عملی طور پر ایسا کرنا ناممکنات بلکہ معجزات میں سے ہے۔دعوے زیادہ تھے اور وقت کم تھا اور اگر ان کی طرف سے کیے گئے وعدوں میں رہتے ہوئے گزشتہ 100دن کی تصویر دیکھی جائے تو زیادہ خوش کن نہیں ہوگی ۔ناتجربہ کار حکومت کے پہلے چند ماہ تو حکومتی کرسیوں کی ’’الف ب‘‘کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں ۔اگر ہم اس حکومت کا پچھلی حکومتوں سے موازنہ کرکے دیکھیں خصوصاََ پہلے چند ماہ کے ساتھ تو تصویر کچھ دل کو بھاتی ہے ۔ناتجربہ کاری،کچھ غلطیاں ،کچھ غلط انتخاب اور کچھ جگہ پربے جا بول کر بھی وزیراعظم عمران خان نے امید کی شمع کو ابھی تک جلائے رکھا ہے ۔عمران خان کے مخالفین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ بندہ بذات خود کرپٹ نہیں ہے ۔اس کی سلیکشن، بندے کا انتخاب غلط ہوسکتا ہے لیکن اس کے پیچھے اس کی نیت و خلوص جو ظاہر ہوتا ہے وہ غلط نہیں ہے ۔ان 100دنوں میں ایک بات واضح ہوئی ہے کہ موجودہ حکومت تبدیلی لانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آرہی ہے۔ دوست ممالک سمیت دیگر ملکوں سے تعلقات کو بہتر سے بہتر کرنا ،اداروں کو ایک پیج پر لانا اور ہمسایہ ممالک سے خصوصاََ ہند سے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات کرنااس کی ترجیحات ہیں ۔حکومت وقت کو اپوزیشن کی طرف سے بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا ہوگا بلکہ اب تک جو کچھ سامنا کیا گیا ہے وہ کچھ بھی نہیں ۔حکومت کو اپنے کیے گئے وعدوں کی تکمیل کرنی ہوگی کیونکہ یہ قوم ایک امید سے جڑی ہوئی ہے جس دن یہ قوم امید نامی خیال یار کو چھوڑ بیٹھی تو پھر یہ پاکستان کے لیے مشکل ترین وقت شروع ہوجائے گا کہ یہ جذباتی قوم کب کسی کی سنتی ہے !
 

شیئر: