Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

100دن اور کرپٹ سیاستدان

***خلیل احمد نینی تال والا***
پاکستان میں وعدوں کی سیاست عام ہے۔ موجودہ سیاست دانوں کا ماضی تلاش کیا جائے تو 70کی دہائی میں جب پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو ان کے وعدے کا محور روٹی ،کپڑا اور مکان تھا ۔قوم دیوانگی کی حد تک پیچھے چل پڑی۔ جب پی پی  کو حکومت ملی تو سب سے پہلے ڈالر جو 5روپے سے بھی کم تھا ایک رات میں 11روپے کردیا گیا۔ دوسری صبح تمام بینک، انشورنس ،اسکول یعنی تعلیمی ادارے بنیادی صنعتیں جو سب منافع بخش تھیں قومیا لی گئیں۔یعنی پہلے عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ انقلابی اقدمات کئے گئے ۔سرمایہ دار ،جاگیردار،ڈاکٹرز ،انجنئیرز سب دہل گئے کہ دیکھیں اب کس کی باری ہے۔ نجی فیکٹریوں کے ملازمین کو مالکان کے مد مقابل بٹھا کر بے عزت کرنے کا پروگرام ’’جئے بھٹو‘‘کہلایا ۔جب مہنگائی نے رنگ دکھانا شروع کیا تو عوام کو مطمئن کرنے کے لئے روٹی پلانٹس لگانے کا اعلان کردیا۔اُس وقت کے وزیربلدیات جام صادق علی کو زمینیں بیچ کر مکانات بنانے کی ہدایت کردی ۔ کپڑے کے متبادل کیلئے ٹیکسٹائل ملوں  کے باہر فیئرپرائس شاپس کھلواکر ورکرز کو مطمئن کردیا گیا ۔مگر جب شوسلزم کا نام استعمال ہوگیا تو پھر اصلی چہر ہ سامنے آیا ۔قوم مہنگائی ،بے روزگاری کی دلدل میں گرتی چلی گئی۔ تمام وعدے ہوا میں تحلیل ہوگئے ۔یا ر لوگوں نے کہا روٹی ،کپڑا اور مکان حقیقی طور پر صرف جیل کی نئی اصطلاح کا نام ہے ۔جب حزب اختلاف نے سر اُٹھانا شروع کیا تو جیل بھر دی ۔بڑے بڑے اُس وقت کے سیاست دانوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ۔نیا نعرہ اُبھرا ’’نظام مصطفی‘‘قوم اس کے پیچھے لگ گئی ۔نظام مصطفی کیا آیا قوم کو مارشل لاء کی آڑ میں ضیا  ء الحق مل گیا ۔یہی سیاست دان بھٹو سے تو جان چھڑا گئے مگر ضیا ء الحق کا ساتھ دے کر خوش ہوگئے ۔چلو کسی نہ کسی طرح پاکستان میں اسلامی حکومت تو وجود میں آگئی۔ اب شوسلزم کے سائے چھٹ گئے اور اسلام کا بول بالا شروع کردیا گیا ۔اب 3 قوانین یعنی فوجی ،پاکستانی اور اسلامی آئین وجود میں لائے گئے ۔گویا 3 قوتیں لڑا دی گئیں ۔نتیجہ میں ایک حادثہ کرایا گیا۔ ضیا ء الحق کا جہاز اُڑا دیا گیا ۔پھردوبارہ گنتی شروع ہوئی۔قدرت نے بھٹو فیملی کی دوسری نسل یعنی محترمہ بے نظیر بھٹو کو موقع دیا ۔روٹی ،کپڑا اور مکان جدید طریقے سے شرو ع کیا گیا مگر اس میں خود سیاست دانوں نے جو اقتدار میں آنے سے قبل فوجی مارشل لاء سے مالی طور پر متاثر ہوئے تھے سیاست کو کاروباری شکل اور قوم کے نام پر اپنی جیبیں بھرنی شروع کردیں ۔ڈھائی سال تک یہ کاروبار چلتا رہا۔ قوم کے وعدے پس پشت ڈالنے کی سزا کے طور پر صدر غلام اسحاق خان نے پی پی پی کو کرپشن کے الزامات لگا کر فارغ کردیا ۔اس مرتبہ الیکشن میں قرعہ ضیاء الحق کے جانشین مسلم لیگ ن یعنی میاں نواز شریف کے نام نکلا ۔لوگ روٹی ،کپڑا اور مکان سے نکل کر جمہوری اسلامی میں داخل ہوگئے ۔بڑے بڑے دعوے الیکشن میں قوم سے کئے گئے۔خصوصاً کرپٹ سیاست دانوں سے نمٹنا تھا لیکن خود یہ مارشل لائی سیاست دان اُسی راستے پر چل نکلے جس پر پی پی پی والے فارغ کئے گئے تھے۔ اب دولت لوٹنے کی ریس لگی ہوئی تھی کہ پھر درمیان میں ایماندار صدر اسحاق خان آگئے۔ الغرض حکومتیں آتی گئیں، گرتی رہیں، ابھرتی رہیں ، کسی کو عوام کے وعدے یاد نہیں رہے۔ صرف اور صرف مفادات اول اور مفادات آخر یہی پاکستانی عوام کا مقدر تھے ۔پی پی پی کی تیسری نسل روٹی ،کپڑا اور مکان کا وعدہ تو 70سے لے کر 2018تک کرتی تو رہی مگر کیا پورا کیا؟ ہنڈا 70پر مہاجر قوم کے نام پر آج خود مہاجروں کے حقوق بیچ کر لندن کی زمینوں پرآباد ہوکر اب امریکہ ،کینیڈا ،سائوتھ افریقہ اور یو اے ای میںپر تعش زندگیاں نہیں گزاررہے ہیں؟ سب کے سب سیاست دان اور اُن کے لواحقین ،رشتہ دار اور پارٹی والے خوش حال اور بے چارے عوام بے حال سے بد حال نہیں ہوچکے؟100دن کا حساب مانگنے والے 50سال کا پہلے حساب دیں ۔چھوٹی بھٹی نما فیکٹری لاڑکانہ اور کراچی کے ایک مکان ،ایک سنیما گھر،ایک ہنڈا 70اور معمولی دورسے بننے والے سیاست دان آج لینڈ کروزر،کھربوں روپے کے مالک ،بینکوں کے نادہندگان دوبارہ مسلط ہوکر قوم کو کیا کہنا چاہتے ہیں ؟کیا یہ سب قرضے پی ٹی آئی نے لئے تھے۔ میں کسی کی وکالت نہیں کررہاہوں مگر آج سب ایک زبان ہوکر 100دن کا حساب مانگ رہے ہیں۔ انہیں تو غلاظت ڈالتے ہوئے شرم نہیں آئی ۔آج ایک تنہا ناتجربہ کار سیاست دان جس کی اپنی جیبیں بھی کھوٹے سکوں سے بھری ہیں قوم کو ماضی کی ڈالی ہوئی غلاظتوں سے نکالنا چاہتا ہے ۔خدارا اُس کے لئے راستے کے پتھر نہ بنیں ۔جن کے ماضی کرپشن سے بھر ے ہوئے ہیں ہمارے ناقص اور اندھے قانون کا فائدہ اُٹھاکر آج تک وہ تمام بچے ہوئے ہیں ۔اُن کی مدد اور ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے پاکستان کے مستقبل کو بچانے کے لئے آگے آئیںاور اپنا مثبت کردار ادا کریں شاید ہم اپنے مستقبل کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوجائیں ۔ورنہ قوم تو ابھی تک اندھیروں میں بھٹک رہی ہے اور اندھیروں میں ڈالنے والے خود معہ اپنے اہل وعیال روشنی میں بیٹھے دور سے قوم کو بہکانے میں لگے ہوئے ہیں ۔امید کی ایک کرن ابھری ہے ۔ وہ اپنے آپ کو کم از کم احتساب کے لئے پیش تو کررہا ہے۔ اُس کے دن رات قوم کو مشکلات سے نکالنے کی جدوجہد کررہا ہے اس کی کارکردگی کو غلط معنی نہ پہنائیں ۔ایمانداری سے بتائیں آج تک کس سیاست دان نے عوام کے دکھوں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ایک نام تو گنوائیں ؟ 100دن میں کیسے 70سال کا مداوا ہوسکتا ہے۔ کم از کم احتساب تو شروع ہوا۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں