Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”محبانِ سلیمان خطیب و اسلم بدر“ کے زیر انصرام شعری بزم کا اہتمام

ڈاکٹر سجاد سید کی زیر صدارت دو حصوں پر مشتمل پروگرام کی مہمان خصوصی شاعرہ قدسیہ ندیم لالی تھیں
رپورٹ : اُم آدم۔تصاویر : محمد یوسف شیخ 
برصغیر پاک و ہند ، ایسی جنتِ ارضی ، جہاں زمین اور زمین کے باسی قدرت کی ظاہری اور پوشیدہ نعمتوں و صلاحیتوں سے بلا شبہ مالا مال ہیں۔زمینی نظارے اور چاروں موسم کسی سے مخفی نہیں البتہ جب ہم بات کرتے ہیں صلاحیتوں کی تو یقین کیجئے کہ اس زمین پر جو صلاحیتوں کا مشاہدہ ہمیں ہوا یقینا قارئین کی ایک بڑی تعداد اس سے نہ صرف متفق ہوگی بلکہ کہیں نہ کہیں آپ سب کے اطراف ایسے افراد آپ کو با آسانی نظر آجائیں گے جن کے بارے میں جان کر انسان انگشت بدنداں رہ جائے۔ 
محبانِ سلیمان خطیب و اسلم بدر ادبی تنظیم کے صدر یوسف شیخ نے عین پختگی کی دہلیز پر شاعری کی ابجد کی طرف پیش قدمی کی اور رفتار کچھ ایسی تیز رہی کہ گمان ہوا کہ اب چاند پر جا کر ہی پڑاو¿ ڈالیں گے اور مشاعرے کروائیں گے۔یقین کی حد سے بھی تجاوز کر دینے والی صلاحیتوں سے مالامال اپنی چوتھی غزل سے حاضرین کی بھرپور توجہ لینے میں مکمل کامیاب ہونے والے یوسف شیخ نے ہندوستان کے معروف سینیئر شعرائے کرام سلیمان خطیب و اسلم بدر کو خراج پیش کرنے کی غرض سے انہی کے نام پر تنظیم کی بنیاد رکھی ۔سلیمان خطیب و اسلم بدر ادبی تنظیم کی تنظیمِ نو اور تیسرا دوستانہ مشاعرہ محض ایک ہفتے کی محنت و لگن سے منعقد کیا گیا ۔محترم محمد یوسف شیخ کی انتھک محنت و لگن سے تنظیم چار افراد سے شروع ہوئی اور اب یہ تعداد بڑھ کر11 ہوگئی ہے۔
تنظیم کے زیر انصرام پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا ۔ نظامت کے فرائض ، پاکستان انٹرنیشنل اسکول کے وائس پرنسپل ملک پرویز اختر نے کمال برجستگی و مشاقانہ انداز سے اداکئے ۔بزم کے پہلے دور میں صدر انجمنِ بہار محترم انظار عالم مہمانِ خصوصی تھے۔محترم فاروق پٹیل اور محمد احتشام رججی مہمانِ اعزاز کی نشستوں پر متمکن تھے۔
صدرِ محبانِ سلیمان خطیب و اسلم بدر ،جناب محمد یوسف شیخ نے حاضرین ِ محفل کا خیر مقدم کیا اور تنظیم کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔معروف کالم نگار فاروق پٹیل نے اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی نثر نگاری سے اردو ادب سے منسلک ہیں اور ایک مشن، ایک مقصد کے تحت اپنے خیالات سے اپنے قارئین کو آگاہ کرنے اور ان کی ذہن سازی کرنے میں منہمک رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ماحول غیر شرعی رسومات میں جکڑا ہوا تھا اللہ کریم کا فضل ہوا کہ معاش کی تگ و دو ہمیں مملکت حرمین شریفین لے آئی اور الحمدللہ، مشرق وسطیٰ کے اکثر علاقے جہاں مملکت و دیگر ریگزار عرب کے پیٹرو ڈالر سے فیض یاب ہوئے، وہیں پر شیخ عبدالوہاب نجدی علیہ الرحمہ کی ایمانی دعوت بھی پیٹرو ڈالر کی طرح مختلف علاقوں کو ایمانی دولت سے سیراب کرگئی۔ حاضرین نے فاروق پٹیل کے تاثرات بھر پور توجہ سے سنے اور انہیںسراہا۔
محمدیوسف شیخ نے سلیمان خطیب کی نظم” تنگ پتلون اور چمچے “ پیش کر کے خوب داد حاصل کی۔ جناب اقبال اسلم نے اپنے والد کے متفرق اشعار پیش کئے اور محفل کو پ±ر جوش کر دیا ۔
پروگرام کی طوالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وقفہ بھی دیا گیا ۔ ملک پرویز اختر نے دہری ذمہ داری ادا کی اور مشاعرے کے دور کا آغاز کیا ۔ شہ نشین پر بحیثیت صدرِ مشاعرہ ڈاکٹر سجاد سید اور مہمانِ خصوصی محترمہ قدسیہ ندیم لالی تشریف فرما ہوئیں۔ محمد سلیم حسرت ، ضیاءالرحمٰن، فاروق پٹیل اور انظار عالم کوبھی شہ نشین پر مدعوکیاگیا۔اس شعری بزم میں پیش کئے جانے والے کلام سے اقتباس قارئین کے ذوق و دلچسپی کی نذر:
٭٭ذکی قاضی:
فلک ہے اسی کا ،اسی کی زمیں ہے
خدائی پہ جس کی ہمارا یقین ہے
خزانے میں رب کے کمی جب نہیںہے
تو غیروں کے آگے جھکی کیوں جبیں ہے
٭٭محمد معراج الدین معراج:
رام مندر تو اک بہانہ ہے
اپنی کمزوری کو چھپانا ہے
آ گیا انتخاب کا موسم
 گیت مندر کا پھر سے گانا ہے
٭٭محمد یوسف شیخ:
ہم فرشتے نہیں کہ کچھ نہ کہیں 
ایسے رشتے نہیں کہ کچھ نہ کہیں 
ہم ترا احتساب کر لیں گے
تم نوشتے نہیں کہ کچھ نہ کہیں 
٭٭عامر نظر:
فصیل ذات پہ رقصاں ہے شورِ آئندہ
سسکتی ہے پسِ دیوار خامشی اے دوست
اداس خواب ہیں نوحہ کناں ان آنکھوں میں
مچل رہی ہے نشاط فسردگی اے دوست
٭٭محمد فیاض:
آج سورج ہے مرتبان میں کیا
دھوپ بیٹھی ہے سائبان میں کیا
کوئی کھڑکی نہ کوئی دروازہ
کوئی رہتا بھی ہے مکان میں کیا
٭٭اقبال اسلم:
ہر موڑ پہ تھک ہار کے خیمے نہ لگاﺅ 
اسباب خم راہ گزر ڈھونڈنا ہوگا
خاموشی ہے اچھی مگر اتنی نہیں اقبال
سناٹے نگل لیں گے تمہیں، بولنا ہوگا
٭٭ثاقب جونپوری: 
شاعر محترم نے نعت طیبہ کے اشعار پیش کر کے داد وصول کی۔
٭٭سلیم حسرت:
ہو جائے ہم پہ چشمِ عنایت کبھی کبھی
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
٭٭ضیاءالرحمٰن صدیقی: 
جب نظر اپنے ارادوں پہ جمالی جائے
غیر ممکن ہے نشانہ ترا خالی جائے
٭٭٭
مری نظروں میں جو محبوب ہوئے بیٹھے ہیں 
منظر عام پہ آئیں تو غزل عرض کروں
٭٭ قدسیہ ندیم لالی:
ا±س سے جیسی بھی رہی وابستگی اچھی لگی
دوستی تو دوستی تھی ، دشمنی اچھی لگی 
نرم لہجے میں وہ اس کا بولنا اچھا لگا
اور ایسے میں خود اپنی خامشی اچھی لگی
جس کسی منظر میں لالی وہ نظر آیا نہیں
مجھ کو اُس منظر میں اپنی بھی کمی اچھی لگی 
٭٭ڈاکٹر سجاد سید:
نہ مال و زر سے میسر نہ عز و جاہ میں ہے 
سکونِ قلب تو بس اس کی بارگاہ میں ہے
بلندیاں مجھے دلکش نظر نہیں آتیں
غروبِ مہر کا منظر مری نگاہ میں ہے
ناظم مشاعرہ جناب ملک پرویز اختر نے اختتامیہ کلمات کہتے ہوئے تمام عمائدینِ شہر اور مہمانان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا اور اگلی نشست کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے الوداع کہا۔
 

شیئر: