Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہر کوئی اذیت کے شور میں گم ہے

 

قو میں انسانوں سے بنتی ہیں،۔جس قوم کو اپنے بچو ں کو فنا کی جا نب دھکیلنے کا دکھ نہیں،اس کا مستقبل کیا ہو گا ؟
 تسنیم امجد ۔ریا ض
دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر مجبوری ،بے بسی و لا چاری یا لا قا نو نیت کی عکاس ہے ۔قوم کے ان نازک پھو لوں کو اس امتحان میں ڈالنے کا ذمہ دار کون ہے ؟ان معصوم ذہنوں میں ایک سوال ہے ،جسے ابھی انہیں پو چھنا بھی نہیں آ تا لیکن کچھ ہی عر صے میں یہ سب سمجھ جا ئیں گے اور تب ان کے لئے ا حتجاج کا ہی ایک راستہ ہو گا ۔مزاج پر ما حول کے گہرے ا ثرات ہوتے ہیں یوں کہئے کہ ما ہرین ایسے افعال و کیفیت کو سا ئیکو پیتھی کا نام دیتے ہیں۔اس سے دوسروں کے حقوق اور سماجی اقدار کا ا حترام نظر انداز کرنا آسان سمجھا جانے لگتا ہے ۔عوام حواس با ختہ ہیں اور کوئی ان کا پر سانِ حال نہیں ہے ۔قو میں انسانوں سے بنتی ہیں ۔جس قوم کو اپنے بچو ں کو فنا کی جا نب دھکیلنے کا دکھ نہیں،اس کا مستقبل کیا ہو گا ؟اقبال نے ایسی ہی صورتِ حال کے لئے کیا خوب فر مایا تھا ۔
ڈھو نڈنے والا ستاروں کی گزر گا ہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آ ج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
انہی حالات کے لئے کہا گیا ہے کہ ،جب کو ئی معا شرہ زوال پذیر ہوتا ہے تو اس کے لوگ صرف اپنے بارے میں سو چنے لگتے ہیں۔ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ان کے الفاظ حقیقت سے دور ہوتے ہیں،بے معنی سے ۔بس ایک آ واز ہی رہ جاتی ہے۔ہمارے ملک میں سیاست دانوں کے نعرے گو نج رہے ہیں۔ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کو ششیں جاری ہیں ۔اپنے گرد پھیلی بے بسی سے آنکھیں بند ہیں۔سا ئنس نے و ضا حت کی ہے کہ انسانی دماغ کے دو ارب خلیات ہیں لیکن کام صرف چند ہی کرتے ہیںباقی کو استعمال میں لانے کی کو شش ہی نہیں کی جاتی کیو نکہ اپنی خوا ہشات کے ملبے تلے دبے انسان کے پاس وقت ہی نہیں ۔کا ش انسان سوچے کہ، ” زندگی انسان سے نباہ نہیں کرتی ،انسان کو اس سے نباہ کرنا پڑتا ہے۔وہ سوال کرتی ہے اور جواب چا ہتی ہے اگر آ مادہ نہ پائے تو اسے اس کی خیالی جنت کے حوالے کر کے اپنی راہ لیتی ہے ،، بچے پیدائش سے فوراََ بعد ہی اپنے ما حول کو محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔حالات کی تلخی انہیں توڑ پھوڑ دیتی ہے ۔ان کی سوچ پر منفی چھاپ غالب ہو جاتی ہے ۔وہ فرار کے راستے تلاش کرنے لگتے ہیں۔بے راہ روی کا راستہ انہیں فوری تسکین مہیا کرتا ہے ۔اس معصوم کو اپنے اندر جھانکنے کا وقت ہی نہیں نصیب ہو تا ۔تصویر میں دئے گئے معصو موں کو ابھی تو کھیل کود ہی بھلا لگ رہا ہے ۔دوسری جانب وطن میں ٹرانسپورٹ آئے دن کی سر دردی بن چکا ہے ۔کبھی پٹرول ،کبھی سی این جی گیس اور کبھی ہڑتال کی وجہ سے طلباءو طالبات ذہنی دباﺅکا شکار رہتے ہیں۔حال ہی میںآپا بتارہیں تھیں کہ اکثر ان کے شوہر کو بچے چھوڑنے پڑتے ہیںاس طرح دفتر سے لیٹ ہو جاتے ہیں۔ڈرائیور کا فون آ جاتا ہے کہ آج وہ نہیں آ ئے گا ۔کبھی کبھی تو ہم چھٹی کرا دیتے ہیںاور کبھی کبھی ان کا امتحان بھی رہ جاتا ہے ۔اس کا ا ثر ہمارے ذہنوں پر بہت ہی برا پڑتا ہے ۔ہمارے بچے تو کہتے ہیں کہ ہمیں جلد ہی کسی اور ملک پڑ ھنے کے لئے بھیج دیجئے ۔ان حالات میں حب ا لوطنی کیسے پیدا کریں ۔شاعر نے انہی حالات کے لئے کہا ہے ،
شعلہ ہوں بھڑکنے کی گزارش نہیں کرتا
سچ منہ سے نکل جاتا ہے کو شش نہیں کرتا
گر تی ہو ئی دیوار کا ہمدرد ہوں لیکن
چڑ ھتے ہوئے سورج کی پرستش نہیں کرتا
ترکِ وطن کرنے والوں پر تو حکومت کو ذیادہ توجہ دینی چا ہئے کیونکہ وہ پہلے ہی ذہنی دباﺅ کا شکار ہوتے ہیں ۔بے یارو مدد گار چھو ڑ دینے سے اپنے لئے پریشا نیاں خریدنے کے مترادف ہے ۔اللہ تعالی نے انسان کو اشرف ا لمخلوق ہونے کا درجہ ویسے تو نہیں دیا ۔اس کے عوض اسے خود کو ثابت بھی کرنا ہے ۔اس کائنات کی ہر شے ایک خاص قرینے اور ترتیب سے سجی ہے پھر انسان اسے بے تر تیب کرنے پہ کیوں تلا ہے ؟
ہمارے عوام ایمان کی دولت سے مالا مال ہیں۔انہیں مجبور و بے بس بنا دیا گیا ہے ۔محرومی کسی بھی شے کی ہو انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی ۔ ایسی صورتِ حال کہ ،
ہر کو ئی اپنی اذیت کے شور میں گم ہے
کسے خبر کو ئی چیخا کوئی کرا ہا کیوں
تبدیلی کا نعرہ اللہ کرے سچ ثابت ہو اور سات دہا ئیو ں کے مصائب سے نجات حا صل ہو۔کرنے کو بہت کچھ ہے ۔ہماری آ بادی اتنی ہے کہ ہم یکجہتی سے انفرادی ذمہ داری کو پہچا نتے ہوئے اپنے سب مسائل کاحل نکال سکتے ہیںبس ضرورت اجازت کی ہے ۔ان سے جن کا فرض ہے ۔افسوس انہوں نے کرسی یعنی اقتدار کو ہی اپنا نصیب جان کر فرا ئض کو سمجھنے کی کو شش ہی نہیں کی ۔ہم نے ظلم کو اپنا نصیب جان لیا ہے ۔
سیاسی وا بستگیاں ہمیں بھا نے لگی ہیں۔نسلِ نو کو ٹیکنالوجی کے منفی استعمال میں الجھا کر ان کے مستقبل داﺅ پر لگا دئے گئے ہیں ۔غربت اب آ مدنی کے حساب کتاب کا نام نہیں رہی بلکہ رو ٹی تک محدود ہو چکی ہے ۔شاید ہم بھول چکے ہیں کہ ہماری تر جیحات کیا ہیں ؟ہمارے بنکوں میں پڑا پیسہ ہمیں آ خرت کی پکڑ سے نہیں بچا سکتا ۔ہم خود سے ہی وفادار نہیں رہے تو شکوہ کیسا ؟
دیکھ رہے ہیں سب حیرت سے نیلے نیلے پانی کو
پو چھے کون سمندر سے تجھ میں کتنی گہرائی ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: