Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرد موسم کی ” گرم بازاری“

علم طبیعات کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ سردی کی انتہا گرمی اور گرمی کی انتہا سردی بھی ہوسکتی ہے یعنی بنیادی طور پر دونوں صورتیں اپنی اپنی کیفیات کی منتہا کہی جاسکتی ہیں۔ بہرحال اس سائنسی کلیے سے قطع نظرکرتے ہیں۔ اب ذرا اس زیر نظر تصویر کو دیکھئے جہاں گرمی اورسردی دونوں ایک دوسرے سے غیر محسوس طور پر ملی جلی نظر آتی ہیں۔ پاکستان کے دوسرے شہروں کے ساتھ بلکہ بعض شمالی شہروں سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے کراچی کا موسم بہت ہی سرد اور یخ بستہ ہوگیا۔ سردی کا یہ موسم کم یافت یا متوسط طبقے کے لوگوں کےلئے سستی یا استعمال شدہ چیزوں او رکپڑوں وغیرہ کی معقول قیمتوں میں خریداری کیلئے ”لنڈا مارکیٹ“ کے نام سے مشہور بازار کا رخ کرلیا ۔ پرانے کپڑے اور جیکٹ اور دوسرے گرم کپڑے فروخت کرنے والے کئی دکاندار تجاوزات کے خلاف حالیہ آپریشن کے نتیجے میں اپنی دکانوں کے انہدام کے بعد ٹھیلوں وغیرہ پر کپڑے فروخت کررہے ہیں۔ جو کپڑے قیامت خیز سردی سے قبل سستے داموں مل سکتے ہیں۔ اب مہنگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔ جس سے ان کاروبار یوں کی جیبیں گرم ہوجاتی ہیں اور اس گرمی کا کچھ حصہ ٹریفک کا نظام درست رکھنے کے نام پر سڑکوں پر متعین اہلکاروں کی جیبوں میں بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ یعنی سرد موسم کی یہ ” گرم بازاری“ ایک روایت کا روپ دھار چکی ہے ۔ آپ کے سامنے جو تصویر ہے اس میں ٹریفک اور دوسرے متعلقہ محکموں کے اہلکاروں نے ایک ٹھیلے والے کو کراچی کے مشہور لائٹ ہاﺅس علاقے میں” قانون شکنی“ کے نام پر روک رکھا ہے۔ ایسا کرتے وقت قانون شکنی پر نظر رکھنے والے ان اہلکاروں کی پیشانیوں پر دور دور تک کوئی شکن نظر نہیں آتی۔ وہ ان سے اپنے حصے کی گرمی وصولی کیلئے بڑی گرمجوشی کا مظاہرہ کرتے ہیں بالاخر انکی جیبیں کسی نہ کسی حد تک ضرور گرم ہوجاتی ہیں۔ بھلے ان غریب ٹھیلے والوں کے گھروں کے چولہے بھلے ”ٹھنڈے“ ہی کیوں نہ پڑے رہیں حالانکہ وہ اس خیال سے ان اہلکارو ںکو سردی نہ لگے اپنی بساط بھر کوشش سے انکی مٹھیاں گرم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔آپ کیا کہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: