Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” واشنگٹن پوسٹ “معذرت کریگا؟

سلمان الدوسری ۔ الشرق الاوسط
امریکہ کا معروف جریدہ واشنگٹن پوسٹ 2ماہ سے زیادہ عرصے تک سعودی عرب کے خلاف بے نظیر تشہیری مہم کی قیادت کرتا رہا۔ یہ مہم جمال خاشقجی کے بھیانک قتل کے موقع پر شروع کی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ نے تشہیری مہم کے دوران جائز ، ناجائز تمام طور طریقے استعمال کئے۔ مشکوک ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات اور نامعلوم اداروں کی جانب سے جاری کی جانے والی اطلاعات شائع کرتا رہا۔ ایسے مضامین چھاپتا رہا جو باقاعدہ تشہیری مہم کیلئے تیار کئے جارہے تھے۔ مہم کا مقصد ایسے کسی بھی فکر اور ایسے کسی بھی تصور کو زندہ درگور کرنا تھا جو واشنگٹن پوسٹ کے رجحان سے اتفاق نہ کرتا ہو۔ ایسی بھیانک مہم چلائی گئی جس میں اصول پسندی کم اور جارحیت حد سے زیادہ تھی۔ واشنگٹن پوسٹ کے ایڈیٹران سے پیشہ ورانہ ضوابط کی پابندی کی توقع تھی لیکن یہ سعودی عرب اور اسکی قیادت پر حملے کرتے رہے۔ نجی حد تک چلے گئے۔ الزامات بلاشواہد اور بلا دلائل پے درپے جاری کئے جاتے رہے۔ واشنگٹن پوسٹ کو ٹرمپ انتظامیہ اوردیگر اداروں کے ساتھ اپنے حساب بے باق کرنے کیلئے خاشقجی کے قتل کا واقعہ ہاتھ آگیا تھا۔ اس نے اس سے جتنا فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا اٹھایا۔ سعودی عرب اسے آسان اور مثالی ہدف مل گیا۔ آج ہمارے کالم کا موضوع یہ نہیں ہے۔ ہماری گفتگو کا محور یہ ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے جو کچھ کیا اسے کیا نام اور عنوان دیا جائے؟خود اس جریدے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ جمال خاشقجی کے تمام مضامین اور انہوں نے سعودی عرب کیخلاف جو ناقدانہ تحریریں واشنگٹن پوسٹ کے حوالے کیں اور وہ تمام رجحانات جن کا انہوں نے مذکورہ جریدے کے صفحات پر اظہار کیا اور جن کی بنیاد پر انہیں سعودی عرب کے ناقدین کی فہرست میں نمایاں جگہ حاصل ہوئی۔ وہ سب انکا اپنا لکھا ہوا نہ تھا۔ انہیں کوئی اور طاقت ایسا کرنے پر آمادہ کررہی تھی اور وہی انہیں سعودی عرب کے خلاف ناقدانہ تحریریں شائع کرنے کی ترغیب دے رہی تھیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ مکمل ایک برس تک واشنگٹن پوسٹ نے اپنے صفحات پر جس صحافی کے نام سے دسیوں مضامین شائع کئے وہ سب کے سب جعلی اور غیر حقیقی تھے۔ لکھتا کوئی اور تھا اور تصویر جمال خاشقجی کی ہوتی۔ کسی اور کی لکھی تحریروں پر انکا نام دیدیا جاتا۔ حقیقی قلمکار سعودی عرب کا حریف ملک قطر تھا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا بین الاقوامی ابلاغ کی تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ گزرا ہے؟
یہ بات محتاج بیان نہیں کہ قطر کے حکمراں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ خاص طور پر ان لوگوں کے خلاف انہیں کچھ بھی کرنے میں کوئی عار نہیں جنہوں نے قطر کی حقیقت دنیا کے سامنے رکھی۔ جنہوں نے قطر کا بائیکاٹ کیا۔ قطر کے حکمرانوں نے اپنے وطن کے تئیں ناقدانہ موقف اختیار کرنے والے کا قلم خرید لیا اور دنیا کے محترم ترین اخبار کو فریب میں مبتلا کیا۔ مثال کے طور پر بیرون مملکت مقیم وہ سعودی شہری جو خود کو مخالفین کے زمرے میں شمار کرنا پسند کرتے ہیں وہ سب کے سب قطری حکمرانوں کے تخریبی منصوبے کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ قطر نے جو کچھ کیا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ قطر کے حکمراں سعودی عرب کو تقسیم کرنے کی سازش بھی کرچکے ہیں۔ آواز اور عمل کی صورت میں اس کے شواہد ریکارڈ پر آچکے ہیں۔ حقیقی حیرت انگیز واقعہ تو یہ ہوا کہ واشنگٹن پوسٹ نے میڈیا میں اپنے انحطاط کا منظر نامہ از خود مرتسم کیا۔ ایک ریاست جعلی نام سے مضامین تحریر کراتی رہی اور واشنگٹن پوسٹ انہیں چھاپتا رہا۔ اگر جمال خاشقجی کا قتل نہ ہوا ہوتا تو ممکن ہے یہ حقیقت طشت از بام نہ ہوتی اور قطر برسہا برس تک مملکت کے خلاف جھوٹے مضامین انکے نام سے چھپواتا رہتا۔ ان تحریروں کا ہدف سعودی عرب ہی نہیں تھا بلکہ امریکی انتظامیہ بھی تھی۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ دیگر ذرائع ابلاغ کو یہ تک پتہ نہیں کہ دوحہ کے حکام سعودی عرب اور واشنگٹن کے خلاف کن کن قلکاروں سے کیا کچھ خدمات حاصل کررہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے کئے کا بھانڈا پھوڑ دیا جبکہ دیگر ابھی تک سچائی تک رسائی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔
اگر واشنگٹن پوسٹ کو جعلی مضامین شائع کرنے کے سلسلے میں دھوکہ دیا جاتا رہا ۔ ان مضامین کے توسط سے غلط نتائج اخذ کرکے پیش کئے جاتے رہے۔ مغالطہ آمیز تصورات اور جھوٹے الزامات شائع کئے جاتے رہے تو میں سمجھتا ہوں کہ واشنگٹن پوسٹ کو اپنے اس کردار پر ایک مرتبہ تو معذرت تو کرنی ہی ہوگی۔ اگر اس کے بعض ایڈیٹران اس قضیے میں ملوث ہوں تو واشنگٹن پوسٹ کو اپنی تاریخی شناخت برقرار رکھنے کیلئے اپنے صفحات پر 100بار معذرت کرنا ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: