Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بینظیر بھٹو کی یادیں آج بھی تازہ

***غلام مرتضیٰ باجوہ***
دسمبر کے ساتھ ہی تلخ یادوں کا چراغ روشن ہونے لگتا ہے ایسی یادیں جو کسی نہ کسی حوالہ سے قومی اور سیاسی زندگی کے ان پہلوئوں کو اجاگر کرتی ہیں جن سے پاکستان اور قوم کا مستقبل وابستہ تھا۔ 27دسمبر 2007ء  لیاقت باغ ، دختر مشرق اور ملک کی مقبول لیڈر کو قوم سے جدا کر گیا۔ بے نظیر بھٹو کو جدا ہوئے11 برس ہوگئے ہیں مگر ان کی یادوں کی خوشبو کبھی بھی اور کسی بھی سطح پر کم نہیں ہوئی، قوم کو شکوہ صرف اس بات کا ہے کہ ابھی تک بے نظیر بھٹو کے قاتل بے نقاب نہیں ہوسکے۔ شہید بی بی سے یادگار ملاقاتوں کا احوال آج بھی سیاسی کارکنوں کے لیے سرمایہ سے کم نہیں۔
 بے نظیر برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد جون 1977ء میں اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ ملک کے خارجہ امور میں خدمات سر انجام دیں گی۔ لیکن ان کے پاکستان پہنچنے کے دو ہفتے بعد حالات کی خرابی کی بنا پر حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ذو الفقار علی بھٹو کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور ساتھ ہی بے نظیر بھٹو کو بھی گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ اپریل 1979ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ذو الفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی۔ 1981ء میں مارشل لاکے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا جس میں آمریت کے خلاف 14 اگست 1983ء سے بھر پور جدوجہد شروع کی گئی، تحریک کی قیادت کرنے والے غلام مصطفی جتوئی نے دسمبر 1983ء میں تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا، لیکن عوام نے جدوجہد جاری رکھی۔ 1984ء میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی جس کے بعد انہوں نے 2 سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔ اسی دوران پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے انھیں پارٹی کا سربراہ بنا دیا۔ ملک سے مارشل لا اٹھوائے جانے کے بعد جب اپریل 1986ء  میں بے نظیر وطن واپس لوٹیں تو لاہور ائیرپورٹ پر ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو 1987ء میں نواب شاہ کی اہم شخصیت حاکم علی زرداری کے بیٹے آصف علی زرداری سے روشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی جدوجہد کا دامن نہیں چھوڑا۔ 17 اگست، 1988ء میں ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ملک کے اندر سیاسی تبدیلی کا دروازہ کھلا۔ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔ جس نے 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ 16 نومبر، 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس میں قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں پیپلز پارٹی نے حاصل کیں۔ بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر1988ء میں 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ اگست، 1990ء میں 20ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو بے پناہ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا۔ 2 اکتوبر، 1990ء کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ نواز اور بے نظیر حکومت کی مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے الائنس بنایا۔ جس نے انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کے سربراہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔ جبکہ بے نظیر قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔ 1993ء میں اس وقت کے صدر نے غلام اسحاق خان کی نواز شریف کی حکومت کو بھی بد عنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا جس کے بعد اکتوبر، 1993ء میں عام انتخابات ہوئے۔ پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتیں معمولی اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور بے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیر ِاعظم بن گئیں۔ پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے 1996ء میں بد امنی اور بد عنوانی،کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
بے نظیر نے اپنے بھائی مرتضیٰ کے قتل اور اپنی حکومت کے ختم ہونے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے دبئی میں قیام کیا۔ اسی دوران بے نظیر، نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی کی بنیاد ڈالی اور ملک میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان کیا۔ ان کی جلاوطنی کے دوران ایک اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب 14 مئی 2006ء میں لندن میں نواز شریف اور بے نظیر نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کر کے جمہوریت کو بحال کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ دوسری پیش رفت اس وقت ہوئی جب 28 جولائی 2007ء کو ابوظبی میں جنرل مشرف اور بے نظیر کے درمیان ایک اہم ملاقات ہوئی جس کے بعد پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تقریباً ساڑھے 8 سال کی جلاوطنی ختم کر کے 18 اکتوبر کو وطن واپس آئیں ۔ ان کا کراچی ائیرپورٹ پر فقید المثال استقبال کیا گیا۔ بے نظیر کا کارواں شاہراہِ فیصل پر مزارِ قائد کی جانب بڑھ رہا تھا کہ اچانک زور دار دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں متعدد کارکن شہید گئے جبکہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن جب اپنے بچوں(بلاول، بختاور اور آصفہ) سے ملنے دوبارہ دبئی گئیں تو ملک کے اندر جنرل مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ یہ خبر سنتے ہی بے نظیر دبئی سے واپس وطن لوٹ آئیں۔ ایمرجنسی کے خاتمے، ٹی وی چینلز سے پابندی ہٹانے اور سپریم کورٹ کے ججز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔27 دسمبر 2007ء کو  لیاقت باغ میں عوامی جلسے سے خطاب کے بعدانہیں شہید کردیا گیا۔ 
 

شیئر: