Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک عرصے بعد واٹس اپ کھولا

 اجنبی لڑکی کے ارسال کردہ اشعار کی خوبصورتی سے وہ خود کو محفوظ رکھنے کی بجائے محظوظ ضرور ہوتا گیا۔۔۔زندگی میں پہلی مرتبہ  اسے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی
ناہید طاہر۔  ریاض 
بہت ہی کم عمر میں ریحان کے دل نے کسی وجہ سے دھڑکنے سے انکار کرنا چاہا تو وہ ، زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑا سینے میں عجیب سی گھٹن محسوس کرنے لگا۔مایوس کن لمحات میں لگا کہ زیست اپنا دامن چھڑانے کی کوشش میں کوشاں ہے۔اس نے اپنے ہوش و حواس کو بمشکل اکٹھا کرکے آہستہ سے اپنے روم میٹ کو جھنجھوڑا۔ یہاں پردیس میں اس کا کوئی شناسا نہیں تھا۔ ملازمت کے سلسلے میں اپنوں سے دور سات سمندر پار زندگی گزارنے پر مجبور، صحرا  میں بسا اجنبی ملک ، اجنبی شاہراہیں، اجنبی ماحول۔۔۔۔!!!
روم میٹ نے بروقت اسپتال پہنچادیا۔ ڈاکٹروں کی محنت رنگ لائی اور وہ دوبارہ راہِ زیست پر گامزن نظر آنے لگا۔ اس سانحے کے بعد وہ اپنے ملک لوٹنا چاہتا تھا ۔ ڈاکٹروں کی جانب سے اس دوران سفر کرنے پر سخت ممانعت تھی۔ کچھ دن اسپتال میں آبزرویشن کے تحت علیحدہ کمرے میں رکھا گیا۔۔۔۔ یہاں شام ڈھلے ایک عجیب سی ہولناکی چھا جاتی، در و دیوار سے جھانکتی خوفناک خاموشیاں اسے ناگن کی طرح ڈسنے لگتیں۔۔۔لمحے اس پر صدیاں بن جاتے۔ کھوئی کھوئی آنکھوں سے گھنٹوں چھت کو تکتا رہتا۔
ہاں خاموشیوں کی چادر سرکاتی ہوئی خوبصورت نرس چھم سے ہوا کا ایک معطر جھونکا بن کر روم میں داخل ہوتی۔ دوائی دیتی ساتھ میں بی پی چیک کرنے کے بعد خوبصورت مسکراہٹ کا نذرانہ پیش کرتی ہوئی انجکشن لگا دیتی۔مسکراہٹ کے سحر میں درد کافور ہوتا اور وہ اپنے معمول کے مطابق پھر سے غائب ہوجاتی۔ اس کے آجا نے سے لمحوں کا سکوت کچھ پل کے لئے ٹوٹ ضرور جاتا،،،، مریض بستر پرلیٹا کس قدر  بے بس  ہوتا ہے، تنہائی زہر بن کر کس طرح وجود میں سما جاتی ہے۔ دیوار پر لگی گھڑی اپنی ٹِک ٹِک سے سکوت توڑنے کی نا کام کوشش کرتی ہوئی جیسے ہانپنے لگتی۔ دل آرزو کرتا کہ وقت ہوا کا کوئی تیز جھونکا بن جائے اور کیلینڈر کے اوراق کو اپنے ہمراہ اڑا لے جائیں۔۔۔۔ہر آرزو کی تکمیل ممکن نہیں ، وقت کے ساتھ تاریخ بھی کسی ملبے کے ڈھیر میں دبی بیمار کی لاچاری سے زیادہ لاچار نظر آرہی ہوتی۔ دراصل ریحان کی زندگی ایک تیز رفتار ،مصروف ترین زندگی تھی جو پورے تواتر و تسلسل کے ساتھ ایک محور کے گرد چکر لگا رہی تھی۔یہی وجہ تھی کہ وہ تنہائی سے آشنائی نہ حاصل کرسکا۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک مدت کے بعد اس نے واٹس ایپ کا جائزہ لیا ، ایک انجان نمبر سے میسج موصول ہوا تھا،یہ ... نیا نمبر ... کس کا ہوسکتا ہے؟؟؟ اسی تذبذب میں میسج کو کلک کیا تو ایک خوبصورت شعر نظر نواز ہوا، نیچے لکھا تھا: "جلدی سے ٹھیک ہو جائیں "ساتھ میں سرخ گلاب اور خوبصورت مسکراہٹ کا ایموجی تھا میسج کا اختتام "مہک" کے نام سے ذہن میں خوشبو بکھیرتا ہوا سوالیہ نشان چھوڑ گیا! 
مہک۔۔۔۔۔! ؟ لیکن کوئی شبیہہ ذہن میں ابھرنے سے قاصر رہی۔ نصف گھنٹہ بعد دوبارہ میسج مسکرااٹھا۔طبیعت کے تعلق سے استفسار تھا۔ ساتھ میں دوسرا شعر بھی مسکراہٹ بکھیرتا نظر آیا۔ گر چہ شاعری سے ریحان کو کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن اس اجنبی لڑکی کے ارسال کردہ اشعار کی خوبصورتی سے وہ خود کو محفوظ رکھنے کی بجائے محظوظ ضرور ہوتا گیا۔۔۔زندگی میں پہلی مرتبہ  اسے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دے رہی تھی۔۔۔ ایک دن اچانک وائس میسج موصول ہوا۔اس کی خوبصورت آواز ، طلسماتی لب ولہجہ ایسا سحرخیز تھا کہ ریحان کے دل کی دھڑکن اس قدر تیز ہونے لگی کہ گھڑی کی ٹک ٹک پر قابض ہو گئی۔۔ ! سوشل میڈیا کی یہ دوست بہت دلچسپ ثابت ہورہی تھی۔۔۔! اب تو یہ روز کا معمول بن گیا کہ وہ ہر دوسرے پل اس کے درِ دل پر دستک دے کر بغیر اجازت قصرِدل میں داخل ہوجاتی۔ ریحان بھی اس کے انتظار میں آنکھیں موندے پڑا رہتا، اس کی تنہائیاں مہک کے تصور سے گنگنا اٹھیں۔
زندگی کی رفتار سے اچانک کنارہ کشی حاصل ہو تو ماحول کی خاموشیاں ذہن کو تھکا دیتی ہیں۔ ایسے میں پیار سے کہا گیا ایک جملہ بھی کتنی بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔وہ صرف مریض ہی جان سکتا ہے۔ دشتِ تنہائی میں مہک کی کھنک دار آواز ایک نغمگی بکھیرتی چلی گئی۔مہک کو جنون کی حد تک شاعری سے لگاؤ تھا، اس کا ہر لفظ اپنے وجود میں ایک مکمل غزل ہوتا۔۔!!!اس کے ہر انداز میں خوبصورت اشعار کا خمار ہوتا، گویا اس کے وجود میں شاعری رچ بس گئی تھی۔۔۔۔۔ !!! وہ دن میں کئی مرتبہ ریحان کی خیریت دریافت کرتی۔۔۔۔کوئی خوبصورت سا شعر سنا کر کسی خوشبو کی مانند فضا  میں تحلیل ہوجاتی۔ریحان پورے دو ہفتہ بعد ڈسچارج ہوکر اپنے روم پر لوٹا تو یہاں بھی صرف تنہائی نے خیر مقدم کیا تھا۔۔۔روم میٹ بڑے جذبے کے ساتھ اس کا خیال رکھ رہا تھا لیکن وہ صبح جب ڈیوٹی چلا جاتا تو پھر سے وہی تنہائی اور وہی درودیوار کی خاموشیاں۔۔۔۔!!!لیکن اب ریحان کی تنہائیاں مہک اٹھی تھیں اکثر کمرے کی خاموش فضاء  میں مہک کی کھنک دار آواز سے ارتعاش پیدا ہوجاتا۔مہک بہت باتونی لڑکی تھی دونوں نے بے شمار باتیں کیں۔ ہر موضوع پر۔۔۔!!! اس کی بہترین خوبی یہ تھی کہ اس کا لہجہ ہمیشہ شگفتہ ہوتا۔کبھی کسی بات کی شکایت، شکوہ نہیں کرتی۔بہت اونچے کردار کی مخلص لڑکی۔ باتوں کا سلسلہ اتنا طویل ہوجاتا کہ وقت کا احساس ہی نہیں رہتا۔ایک دن ریحان نے اس سے تصویر مانگی تو وہ پہلے تو ہنس کر ٹال دیا۔۔۔لیکن دوسرے دن اس نے تصویر بھی روانہ کردی۔ چند ہی ساعت بعد وہ تصویر ڈیلیٹ کردی گئی۔
یہ کیا ، کیا۔۔؟ دکھ تلے ریحان کے لبوں پر شکوہ ابھر آیا۔
بس دیکھ لیا ناں۔۔!!!
بدنصیب آنکھوں کی تشنگی کا خیال تو رکھتیں۔!!!
ہممم۔۔۔!
یہ خوبصورت حرکت اکثر دہرائی جانے لگی۔ ریحانن ے ایک  دن شکایت کی۔
مہک تم مجھ پر بھروسہ نہیں کرتیں؟ کوئی بات نہیں۔۔۔!!! چاہوں تو تمھاری تصاویر بذریعہ سکرین شاٹ محفوظ کر سکتا ہوں لیکن میں نے ایسا نہیں کیا اور نہ ہی کروں گا۔ جب تک کہ تم مجھ پر مکمل اعتبار نہ کرلو۔۔۔ !!! کیونکہ اعتبار اور اعتماد، رشتے کی بنیاد ہوتے ہیں۔جواب میں وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ 
اس وقت ہنستی ہوئی زہر لگ رہی ہو۔!!!ریحان نے برہمی  ظاہرکی۔ جواب میں وہ خاموش رہی۔
جاناں۔۔۔!کیا میں نے تمھارے اعتماد کو کبھی ٹھیس پہنچائی۔۔؟
نہیں۔۔۔۔۔۔! مختصر سا جواب تھا
ہممم۔۔۔!اب تم بھی امتحان میں کامیاب ہوکر بتاؤ تو جانوں۔۔!!! جواب میں اس کا وائس میسج موصول ہوا۔
حکم کریں۔۔۔! اس کی آواز میں کسی انجانے خدشے کا ارتعاش جھلک رہا تھا۔تم کہتی ہو ناں! رات کی تنہائی میں میرے میسجز دوبارہ پڑھتی ہو۔۔۔! آگے ایسا نہیں کروگی۔۔۔بلکہ لیٹنے سے پہلے تم سارے میسجز ڈیلیٹ کروگی۔۔۔!
شاید تم سے یہ نہیں ہوگا۔۔!!!
کیونکہ یہ بہت مشکل کام ہے۔ریحان مذاق اڑانے لگا تو وہ خاموش ہوگئی۔شاید وہ آف لائن بھی ہوگئی تھی۔ریحان کے دل پر ایک چوٹ سی لگی۔کچھ دن بعد مہک نے لکھا
الحمدللہ۔۔۔! آپ پر اعتبار آگیا۔۔۔!!!
********
(باقی آئندہ)
 

شیئر: