Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کا استحصال،معاشرے میں بد نماداغ

***احمد آزاد،فیصل آباد***
کس کس بات کا نوحہ لکھیں کہ اپنے سارے دکھ درد وتکالیف و مصائب برداشت کرلیتے ہیں لیکن ننھی جانوں کے اوپر ہونے والے اس ظلم وستم سے شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔تقسیم برصغیر کے وقت ہجرت کرتے ہوئے لاکھوں انسانوں کا قتل عام برداشت کیا۔71ء میں پاکستان دولخت ہوا، وہ بھی برداشت کرگئے ،دہشتگردی کی فضاء چلی تودنیا میںواحد پاکستانی قوم تھی جس نے اس عفریت کو شکست دی پھرآرمی پبلک اسکول کا سانحہ ہوا جس میںدولت کے پجاریوں نے طالب علموں کواپنی بربریت کا نشانہ بنایا۔پوری پاکستانی قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان بھر میں ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہوا جس میں ان کے سہولت کاروں کوپکڑ کر قانون کے تحت سزائیں دی گئیں۔ دنیا بھر میں ترقی کے ڈھنڈورے پیٹے جارہے ہیں لیکن انسانی پستی کے ایسے بدنما داغ چہرے پر لگ رہے ہیں کہ چہرہ چیچک زدہ ہوکر کالا ہوچلا ہے ۔حوا کی بیٹی عزت لے کر پیدا ہوتی ہے اور بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ رداء، سلمیٰ،رافعہ، زینب، اسماء اورملائیکہ کے بعد اب 3سالہ فریال کو زیادتی کا نشانہ بنا کررات کی ٹھنڈ میں کھلے آسمان تلے سسکنے ،تڑپنے اور مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ان جیسے کئی واقعات ایسے بھی ہیں جو کہ رپورٹ نہ ہوسکے یا والدین نے بچی کی زندگی بچ جانے کی صورت میں عزت کو ترجیح دی اور واقعہ کسی بھی جگہ رپورٹ نہ کیا گیا ۔آئے روز ایسے واقعات ہورہے ہیں۔ ایف آئی آر درج کروائی جاتی ہے، کچھ کیسز میں مجرمان گرفتار بھی ہوتے ہیں اورپھر ان میں سے بعض میں مجرمان کو سزا بھی دی جاتی ہے ۔
چند ہزار کی آبادی والے حویلیاں،ایبٹ آباد کے قریبی گائوں کیالہ میں دوپہر ڈھائی بجے کے قریب گھر سے 3سالہ بچی غائب ہوئی ۔تلاش وبسیار کے بعد شام ساڑھے سات بجے کے قریب تھانے میں رپورٹ درج کروائی گئی اور پولیس بھی تلاش کونکل کھڑی ہوئی۔ 26دسمبر کی صبح بچی کی لاش گائوں کی قریبی کھائی سے ملی ۔ابتدائی طبی رپورٹ کے مطابق بچی کی ہلاکت زیادتی ،خوف،تکلیف اور نیم مردہ حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے رہنے کی وجہ سے ہوئی ۔طبی رپورٹ کے مطابق زیادتی کے بعد بھی فریال زندہ تھی اس کی سانسیں چل رہی تھیں لیکن درندے نے نیم مردہ حالت میں 3سالہ ننھی کلی کوایبٹ آباد کی یخ بستہ سردی میں مرنے کے لے چھوڑدیا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے کچھ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے اورکچھ مشکوک افراد کے نمونے لاہور ٹیسٹ کے لیے بھجوائے ہیں تاکہ ڈی این اے کروایا جاسکے ۔سرحد پر پاکستانی قوم کی حفاظت کرنے والے کی اپنی بیٹی کو درندوں نے سرحد کے اندر درندگی کا نشانہ بنادیا۔فریال کی لاش کے قریب بیٹھے شکنوں سے بھرپور پیشانی اور چہرے پر گردش کرتے ان گنت سوالات لیے فریال کے والد کا سامنا کرنے کی ہمت ہے نہ تاب۔ان سوالات کاسامنا کرنا زندہ ضمیروالے کے لئے مشکل ترین مرحلہ ہے کہ کس کس بات کا حوصلہ دے اور کس بات پر تعزیت کرے کہ یہاں تو انسانیت ہی زندہ درگور ہوچکی لیکن اس بار میڈیا کا اس حوالے سے وہ کردار سامنے نہیں آیا جو اس نے زینب قتل کیس میں قوم کے سامنے رکھا تھا۔اب ایک بار پھرماضی کی طرح سیاست دان ہوں گے، فوٹو سیشن ہوگا اورپھر قسمت کی بات ہوئی تو مجرم پکڑے جائیں گے سزا بھی ہوجائے گی لیکن زینب کیس کی طرح یہ دلخراش واقعہ بھی اپنے پیچھے کئی ایک سوالات چھوڑ جائے گا جن میں سے کچھ کا تو تعلق حکومت سے ہوگا،کچھ کا قانونی طریقہ کار سے اور کچھ کا معاشرے سے ۔
اپریل میں جاری ہوئی ایک غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہرروز9سے زیادہ بچے تشدد کا شکارہوجاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق سال 2017 ء میں بچوں کے اغوا کے 1039 واقعات سامنے آئے جبکہ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کے 467، لڑکوں کے ساتھ 366، زیادتی کی کوشش کے 206، لڑکوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے 180 اور لڑکیوں کے ساتھ 158 واقعات رپورٹ ہوئے۔گذشتہ برس بچوں سے استحصال کے کل 3445 واقعات پیش آئے تاہم ان اعداد وشمار کو 2016 کے اعداد و شمار سے کم بتایا گیا ہے جو کہ 694 کیسز زیادہ تھے۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس بچوں کا استحصال کرنے والے افراد میں زیادہ تر ان سے واقفیت رکھتے تھے۔ یہ تناسب 43 فیصد بتایا گیا ہے جبکہ 2016 کے برعکس 2017 میں ایسا کرنے والے افراد میں اجنبیوں کی تعداد 36 فیصد کم ہوئی ہے۔رواں سال2018ء میں زیادتی کے ایک ہزار 214 واقعات سامنے آئے ہیں، 14 بچوں اور بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ سب سے زیادہ واقعات لاہور میں پیش آئے جہاں 102 بچوں سے بد فعلی جبکہ 97 بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی، 4 بچوں اور بچیوں کو قتل کیا گیا۔
اس طرح کے کئی ایک واقعات ہیں جو ہمارے معاشرے کابدنماداغ ہیں۔سیاست اپنی جگہ ،اختلافات اپنی جگہ لیکن اس طرح کے اندوہناک واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت وقت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے ہوں گے ۔اس گھنائونے فعل سے جُڑے قوانین کو شرعی قوانین میں بدلنا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے ۔وزیراعظم پاکستان بڑے وثوق و تیقن سے ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں تو خدارا ریاست مدینہ والے قوانین بھی پاکستانی معاشرے پر لاگو کردیں ۔ شرعی سزائیں اور انصاف کی بلاتعطل فراہمی ہی ان درندوں کولگام ڈال سکتی ہیں ۔معاشرے کا بھی اس حوالے سے اپنا کردار لازمی نوعیت کا ہے ۔والدین،اساتذہ و دیگر تربیت کرنے والے افراد اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کوسمجھیں ۔والدین اپنے بچوں کے اردگرد نظر رکھیں کہ کچھ واقعات میں خونی رشتے بھی ملوث پائے گئے ہیں۔معاشرے کو جلد شادی کو رواج دینا ہوگا تاکہ اس قبیح فعل سے نسل نو کو بچایا جاسکے۔اس حوالے سے اگر آپ کچھ کرسکتے ہیں تو خدارا کر گزریئے کہ معاشرہ تیزی سے تباہی کی کھائی جانب بڑھ رہا ہے ۔معاشرہ افراد سے مل کر ہی بنتا ہے۔افراد کو اس حوالے سے اپنا آپ رضاکارانہ طور پر پیش کرنا ہوگا ۔والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزار کر ان کی تربیت کرناہوگی۔اسکولوں ،کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے خصوصی تربیت کے حامل افراد کوآگے لانا ہوگا ۔افراد کو اپنے اردگرد نظر رکھنا ہوگی کہ کوئی اور زینب و فریال کسی درندے کے ہتھے نہ چڑھ جائے ۔
 

شیئر: