Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وقت ، انسان کا اصل سرمایہ


***عارف عزیز۔ بھوپال***
    اسلامی نظریہ کے مطابق دن، مہینے اور سال، سب خدا کے بنائے ہوئے ہیں اس لئے نہ کوئی دن، نہ مہینہ اور نہ سال اپنی ہیئت میں منحوس ہوتا ہے نہ مبارک ہوتا ہے۔ سب کے اچھے یا برے ہونے میں خدا کے حکم اور انسانی اعمال کا دخل ہے۔ اس بارے میں کسی کو کوئی وہم نہیںہونا چاہئے جو کچھ سعد یا قبیح پیش آتا ہے، پہلے سے مقدر ہوجاتا ہے ، اِسی لئے اسلام نے تمام واہموں کی نفی کی ہے اور انسانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ اچھا عمل کرو اور رحمتِ خداوندی سے مایوس نہ ہو، مصیبت آئے تو صبر کرو اور اپنے مالکِ حقیقی سے دعا کرو کہ ناخوشگوار دن جلد دور ہوجائیں، راحت ملے تو شکر بجالائو، انسان کے ساتھ قضا وقدر لگے ہوئے ہیں، دکھ اور سکھ سب انسانوں کے لئے ہیں اور ان کو عمل کی طاقت عطا کرکے اپنی زندگی کو اچھایا برا بنانے کا مجاز بنادیاگیا ہے۔ بقول مولانا شبیر احمد عثمانی:
    ’’انسان کا اِس سے بڑھ کر نقصان کیا ہوگا کہ برف بیچنے والے دکاندار کی طرح اس کی تجارت کا راس المال جسے ’’عمر عزیز‘‘ کہتے ہیں دم بدم کم ہوتا جارہا ہے، اگر اس روا روی میں انسان نے کوئی اچھا کام نہ کرلیا، جس سے کہ یہ عمر رفتہ ٹھکانے لگ جائے اور ایک ابدی اور غیر فانی متاع بن کر ہمیشہ کے لئے کارآمد بن جائے تو پھر خسارہ کی کوئی انتہا نہیں۔ زمانہ کی تاریخ پڑھو اور خود اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرو تو ثابت ہوجائے گا کہ جن لوگوں نے انجام بینی سے کام نہ لیا اور مستقبل سے بے پرواہ ہوکر محض خالی لذتوں میں وقت گزار دیا وہ آخر کار ناکام ونامراد بلکہ تباہ وبرباد ہوکر رہ گئے۔ آدمی کو چاہئے کہ وقت کی قدر پہچانے اور عمر عزیز کے لمحات کو یونہی غفلت وشرارت یا لہو ولعب میں نہ گنوادے، جواوقات، تحصیل شرف و مجد اوراکتسابِ فضل وکمال کی گرم بازاری کے ہیں، اگر غفلت ونسیان میںگزار دیئے گئے تو سمجھو کہ اس سے بڑھ کر آدمی کا کوئی خسارہ نہیں۔ بس خوش نصیب اور اقبال مند انسان وہی ہیں جو اِس عمر فانی کو باقی اور ناکارہ زندگی کو کارآمد بنانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیںــ‘‘۔
    سالِ نو کا جشن منانے والوں کے سامنے مذکورہ فکر انگیز گفتگو کے ساتھ اگر علامہ اقبال کا یہ پیغام بھی رہے تو شاید ان کا نقطہ نظر تبدیل ہوجائے:
اسی روز شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زماں ومکاں اور بھی ہیں
    ایک حدیث میں آتا ہے کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ غفلت میں مبتلا رہتے ہیں،ایک تندرستی اور دوسری فراغت۔ بسا اوقات یہ نعمتیں انسان سے اچانک چھین لی جاتی ہیں اور اُس وقت انسان کو اِس کی قدر واہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں سرور دوعالم نے فرمایا:
     ’’5 چیزوں کو 5 چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، بیماری سے پہلے تندرستی کو، فقر وافلاس سے پہلے مالداری کو، تفکرات  سے پہلے فراغت کواور موت سے پہلے زندگی کو‘‘۔
    واقعہ یہ ہے کہ انسان کا اصل سرمایہ اس کا وقت ہی ہے اور دنیا حقیقت میں عمل کرنے کی جگہ ہے ۔جو شخص یہاں جیسا عمل کرے گا، جو کمائے گا موت کے بعد آخرت کی زندگی میں اس کو ویسا ہی بدلہ ملے گا۔ اسی لئے بزرگوں کا قول ہے کہ ’’قوت کی قدر ہر سعادت وبرکت کا دروازہ کھولتی ہے اور اس کی ناقدری پریشانیوں اور ناکامیوں کو دعوت دیتی ہے‘‘۔
یہ بھی پڑھیں:روشنی کے تازہ شمارے میں کیا ہے؟

شیئر: