Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیرلہ مثالی صوبہ

عبداللہ فدعق۔ الوطن
جنوری 2011ء کے وسط میں ”خیر اللہ“ کے عنوان سے میں نے ہندوستان کے جنوبی صوبے کیرلہ سے متعلق ایک مضمون قلمبند کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ کیرلہ کا حقیقی نام ”خیر اللہ “ تھا عربی نام تھا اسے توڑ مروڑ کر خیر اللہ سے کیرلہ کردیا گیا۔ قدیم زمانے میں عرب تاجروں نے اسے یہ نام دیا تھا۔ یہ ملیبار یعنی پہاڑوں کے علاقے کے نام سے بھی مشہور ہے۔یہاںاسلامی شریعت اور عربی زبان کی تاریخ بڑی معتبر ہے۔اسکا سہرا کیرلہ کے ان فرزندوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے عربی زبان اور اسلامی شریعت کے حوالے سے اپنے یہاں قابل قدر کردارادا کیا۔ اب بھی عربی زبان پڑھانے، سکھانے ، ترجمہ کرنے او رعربی میں کتابیں لکھنے کا سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔یہاں اسلام کاسورج جنوبی ایشیا کے کسی بھی علاقے کے مقابلے میں پہلے طلوع ہوا۔ اس علاقے نے متعدد عالم و ادیب جنم دیئے جنہوں نے دین اسلام اور اسکے علوم کی خدمت کیلئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔اس تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ کیرلہ غیر عربوں کو عربی سکھانے اور دین اسلام کی تعلیم دینے والے غیر عرب علاقوں میں ایک روشن مثال ہے۔ آج کل کیرلہ میں دین کاسیکھنا اور عربی زبان سکھانا بیحد اہم ہوگیا ہے۔ پرامن بقائے باہم کیرلہ کا امتیازی نشان ہے۔ یہاں مسلمان 26فیصد، عیسائی 19فیصد اور باقی ہندو مت کے ماننے والے ہیں۔ کیرلہ کی مجموعی آبادی 35ملین سے زیادہ ہے۔
کیرلہ میں منعقد ہونے والی اسلامی کانفرنسیں دیگر کانفرنسوںسے مختلف مزاج اور انداز رکھتی ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ مختلف شہروں، قصبوں اور بستیوں سے سفرکرکے کانفرنسوں کا رخ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات کانفرنس کے شرکاءکی تعداد 5لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اسکا محرک دین اسلام سے محبت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ کانفرنس میں شرکت کے لئے جملہ اخراجات جیب خاص سے کرتے ہیں۔ کانفرنس میں شرکت کے پیچھے دین اسلام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ 
چند روز قبل ہی کیرلہ میں عالمی اسلامی امن کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔ علماءاور دانشور شریک ہوئے۔ معدن اسلامی یونیورسٹی نے اپنے قیام کی 20ویں سالگرہ پر اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ کانفرنس نے متعدد کامیابیاں ریکارڈ کیں۔ سب سے اہم مذہبی اور عصری مضامین کی تعلیم میں توازن پیدا کرنے کا ہدف تھا۔ قابل بقا قدیم مضامین اور فائدہ مند جدید مضامین کے حسین امتزاج کا اہتمام کیا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ فلاحی و انسانی خدمات کی اہمیت و افادیت کو بھی اجاگر کیا گیا۔ اس کامیابی کی بدولت یونیورسٹی کے بانی ابراہیم البخاری کو کیرلہ کے مختلف تعلیمی اداروں میں امتیازی مقام نصیب ہوا۔ کیرلہ میں بہت سارے دینی تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ ان میں ”کلیہ احیاءالسنہ العربیہ“ اسی طرح جامعہ نوریہ عربیہ، جامعہ السعدیہ العربیہ، جامعہ مرکز الثقافہ السنیہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان اداروں کے بانی شیخ ابو بکر احمد ہیں۔ان درس گاہوں سے فارغ ہونے والے اپنے نام کے ساتھ ”الاحسنی“ کا لقب استعمال کرتے ہیں۔
کیرلہ میں مسلمانوں کی خوبیاں بے شمار ہیں۔ کیرلہ کو کلچرڈ اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ مجھے اہل کیرلہ کی ایک بات بہت اچھی لگی وہ یہ کہ یہاں کے لوگ نوک جھونک، بحث مباحثے کے چکر میں نہیں پڑتے۔ اپنی اس عادت کی بدولت اہل کیرلہ منحرف افکار سے محفوظ ہیں۔انکی توجہ کا محور کردار ہے۔ اسکی تربیت اچھی طرح سے کرتے ہیں۔فکر و نظر کے مباحثوں میں نہیں پڑتے۔ تنقید اور تجریح سے دور رہتے ہیں۔ اخلاقیات اور محنت کو اپنی پہچان بنائے ہوئے ہیں۔ شاندار کارنامے انجام دینے والے علماءکی خدمات کو یاد رکھتے ہیں۔ ان خوبیوں کی بدولت کیرلہ کے لوگ پورے معاشرے میں نیک نامی کمائے ہوئے ہیں۔ یہ فیاضی، نیک نیتی ، لباس اور گفتگو میں وقار اورپرامن بقائے باہم میں عظیم الشان کامیاب کردار کے حوالے سے اپنی شناخت بناچکے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: