Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخر كراچی كا كیا بنے گا؟

***صلاح الدین حیدر***
سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ، پیپلز پارٹی کے دوسرے قائدین، خورشید شاہ، نفیسہ شاہ وغیرہ تو دن رات وفاق سے جھگڑے پر آمادہ نظر آتے ہیں کہ سندھ کو اس کے حصے کا پانی نہیں ملا۔ وفاق سے مالی امداد نہیں مل رہی، نیشنل فنانس کمیشن کی تھر کو دی جانے والی رقم جنوبی صوبے کو ملنی چاہیے وہ نہیں دی جاتی لیکن خاص سندھ کی حکومت انہی اصولوں کو کراچی پر بھی لاگو کرتی، آخر ملک کا سب سے بڑا یہ شہر نہ صرف وفاق کی آمدنی میں 67 فیصد جمع کرتا ہے اور صوبائی حکومت جس کا یہ دارالخلافہ ہے اس پر 96 فیصد جمع کرتا ہے تو پھر خود اس پر کتنا خرچ کیا جاتا ہے۔ سوال بہت اہم ہے، جواب بھی تسلی بخش ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔آخر کیوں؟
بیچارہ کراچی کا میئر اگر شہر کی ترقی کے لئے جائز رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو اسے حقارت سے جھڑک دیا جاتا ہے۔ جب بھی کراچی کے حق کی بات کرو تو صوبے اور کراچی کو علیحدہ کرنے کا الزام تھوپ دیا جاتا ہے۔ ویسے تو پیپلز پارٹی کا ہر لیڈر وفاق سے شاکی ہے، حکومت نون لیگ کی ہو یا پی ٹی آئی کی دونوں ہی برے، صرف سندھ کی بات صحیح ہے۔ بہت خوب، کیا فیصلہ ہے۔ قربان جایئے۔ کسی ٹیلی ویژن کے اینکر نے وسیم اختر سے سوال کر ڈالا کہ آخر اس قدر شکایت کیوں؟ پیپلز پارٹی تو اچھا کام کررہی ہے۔ وسیم اختر نے جو میئر ہونے کے باوجود اختیارات سے محروم ہیں صرف اتنا کہا کہ اگر پیپلز پارٹی صحیح کام کرتی تو لاڑکانہ کو پیرس نہ بنا دیتی۔ اینکر کی طرف سے بھرپور قہقہہ لگا۔ شاید وہ بھی جواب سے لطف اندوز ہوئے۔
آج کراچی کچرے کے ڈھیر سے اٹا پڑا ہے۔ اکثر و بیشتر علاقوں میں تعفن اور گندگی سے دماغ پھٹ جاتا ہے لیکن پھر سوال یہی اٹھتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی جس نے 5 سال بعد2 صوبائی کابینہ میں 2 اردو اسپینگ وزیر بنائے، سعید غنی اور مرتضیٰ وہاب لیکن ان کی کتنی اہمیت ہے اور آصف زرداری یا فریال تالپور کے ہوتے ہوئے انہیں کس قدر آزادی سے کام کرنے کی اجازت ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں۔ خود پی پی کے اندر کئی ایک افراد بھی حقیقت سے ناواقف ہوں گے۔ سعید غنی کو بھی انتخابات میں کراچی سے ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے کابینہ میں شامل کیا گیا۔ جب بات پھر بھی نہیں بنی تو مرتضیٰ وہاب کو شامل کیا گیا جو واقعی انتہائی ایماندار، صاف و شفاف، تہذیب والے انسان ہیں۔ اگر 2013ء میں برسراقتدار آنے کے بعد ہی پیپلز پارٹی کراچی کے لوگوں کو اہم عہدے پر فائز کرتی تو ہو سکتا ہے 2018ء میں نتیجہ مختلف ہوتا۔پیپلز پارٹی میئر کو نظر انداز صرف اس لیے کرتی ہے کہ کراچی میں چند ایک منصوبے بناکر سارا کریڈٹ خود لے لیکن 1970ء سے اب تک ہونے والے انتخابات میں کراچی کے لوگوں نے پیپلز پارٹی کو کبھی ووٹ نہیں دیا۔ 2 یا 3 نشستیں قومی یا صوبائی اسمبلی میں اور بس۔ اس سے زیادہ کبھی بھی پی پی پی کراچی والوں کی اہمیت حاصل نہیں کرسکی۔ 1970ء میں جب کراچی کی کل 7 قومی اسمبلی کی نشستیں تھیں اس وقت بھی پیپلز پارٹی صرف 2 نشستیں ہی جیت سکی۔ حافظ پیرزادہ اور ستار گبول۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات جنرل ضیاء الحق نے کروائے تھے۔ کراچی کی نشستیں بڑھا کر 13 کردی گئیں لیکن پی پی پھر بھی 3 سے زیادہ نشستیں نہیں جیت سکی۔ 1988ء میں تو ایم کیو ایم کے نوجوان لڑکوں نے کایا ہی پلٹ دی۔ الطاف حسین، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر عمران فاروق نے بڑے بڑے برج گرا دیئے۔ پروفیسر غفور، شاہ احمد نورانی سب ہی ہار گئے اور پھر 22 اگست 2017ء تک کسی اور پارٹی کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی کہ وہ ایم کیو ایم کے سامنے کھڑا ہو سکے۔ الزامات تو بہت لگے، لیکن دھاندلی تو پاکستان کے سارے ہی انتخابات میں ہوئی۔ سوائے 1970ء کے کون سے انتخابات ایسے تھے جس میں صحیح طور پر ووٹ پڑے۔ ہر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگے اور الیکشن کمیشن کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
آج اٹھارویں ترمیم پر بات ہوتی ہے۔ صرف زرداری جن کے زمانہ حکومت میں آئین کی تبدیلی کی گئی۔ اس کی حفاظت کے سب سے بڑے چیمپئن بنے ہوئے ہیں۔ صوبوں کی خود مختاری کی تو پروا ہے لیکن صوبوں کے اندر شہری انتظامات کو آزادی کیوں نہیں دی جاتی؟ شنید یہ بھی کہ پیپلز پارٹی سندھ میں لولکل گورنمنٹ قانون میں ترمیم لانے والی ہے جس کے تحت میئر کو بھی باآسانی سے ہٹایا جاسکے گا۔ یہ کیسی جمہوریت ہے؟ پاکستان میں جمہوریت میں نظام کی حفاظت نہیں بلکہ اپنے مفاد کا تحفظ ہے۔ شرم کی کی بات ہے۔ پیپلز پارٹی جمہوریت کی جنگ لڑنے کی اپنے آپ کو علمبردار کہتی ہے لیکن بھٹو صاحب کی جمہوری حکومت میں پریس پر ہر قسم کی پابندی عائد تھیں۔ بے نظیر (اللہ ان کی مغفرت کرے) جنرل مرزا اسلم بیگ سے خفیہ بات چیت کر کے 1988ء میں وزیر اعظم بنیں۔ مذاکرات آرمی چیف اور بے نظیر کے درمیان 2 حضرات کے ذریعے ہوئے، ایک تھے تفضل صدیقی جو ڈی جی آئی ایس پی آر کی حیثیت میں جنرل مرزا اسلم بیگ کے بہت قریب تھے، دوسرے صاحب واجد شمس الحسن تھے جو کہ بے نظیر کے دور حکومت میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین رہ چکے تھے۔ پچھلے کئی برسوں سے وہ برطانیہ میں پاکستان کے سفیر رہنے کے بعد وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اگر کوئی تردید کرنا چاہیے تو ضرور کرے مزید حقیقت سامنے پیش کردی جائے گی۔ راقم الحروف نے یہ بات بھرپور اعتماد اور سنجیدگی سے کہی ہے۔
بھٹو صاحب کے زمانے میں سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں نوکریوں کا تناسب 60/40 طے کردیا گیا لیکن اردو بولنے والوں کے احتجاج پر یہ توجیح دی گئی کہ صرف 20 سال کے لئے ہے آج 40 سال سے اوپر ہوگئے۔ قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی نے اپنے ہی لیڈر کے وعدے سے انحراف کیا ہے۔ حقوق اور جمہوریت کی بات کرنے والے پہلے اپنی ذمہ داریاں سمجھیں، تب کہیں سندھ کے عوام میں یکجہتی اور تعاون کی ابتدا ہوگی۔ اللہ کرے پی پی کے قائدین کو عقل آجائے۔
 

شیئر: