Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اصلاحات

محمد مبشر انوار٭٭٭***
پاکستانی حکمرانوں کے متعلق یہ مسلمہ رائے ہے کہ وہ خدمت خلق کی بجائے فقط طاقت کے حصول اور اس کے بے محابا استعمال کی خاطر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ حکومت یا اقتدار کا مطلب بنیادی طور پر خدمت خلق اور عوام الناس کی فلاح و بہبود ہے جس سے بالعموم موجودہ سیاستدان بے رخی کا ارتکاب کرتے ہیں اور صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ بسا اوقات پارٹی رہنما یہی دعویٰ کرتا نظر آتا ہے کہ اس کا مطمع نظر فقط عوامی فلاح ہے جبکہ حقائق کسی اور رخ کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ عمران خان ذاتی طور پر نہ صرف ایماندار ہیں بلکہ قوم کا درد بھی سینے میں رکھتے ہیں لیکن اس نظام میں رہتے ہوئے جس طرح انہیں یو ٹرن لینے پڑے ہیں،وہ انکے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دیتا ہے،کہ رہنما جتنا بھی ایماندار اور درد دل رکھنے والاکیوں نہ ہو،اسے اس نظام میںرہتے ہوئے مسلسل سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔  بہر کیف بات ہورہی تھی موجودہ نظام اور اس نظام کے پروردہ سیاستدانوں کی ،جن کی نظریں ہمہ وقت طاقت و اقتدار کے مرکز پر جمی رہتی ہیں۔ان کے نزدیک یہ بے معنی ہے کہ طاقت وا قتدار کے مرکز و محور کا حقیقی کردار کیا ہے؟ ان کے فرائض کیا ہیں؟انہیں اپنی حیثیت میں کیا کیا کرنا لازم ہے؟کن باتوں اور اعمال سے انہیں گریز کرنا ہے؟ان کی حدود وقیودکیا ہیں؟ان تمام حدود و قیود کوتوڑنے اور اپنے حق میں استعمال کرنا ہی درحقیقت پاکستانی نمائندگان اپنا حق فائق سمجھتے ہیں،خواہ یہ اختیارات انہیں قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی یا پھر بلدیاتی نظام میں حاصل ہوں،ان کی نظریں ان اختیارات کے ساتھ ہی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں جب بلدیاتی نظام میں اختیارات مرکوز ہوئے تو آج کے بہت سے جغادری،اپنا رُخ تبدیل کر کے بلدیاتی نظام کو پیارے ہو گئے کہ اس وقت ایک ناظم کے اختیارات اتنے زیادہ تھے کہ قومی اسمبلی کی رکنیت بھی اس کے سامنے ماندٹھہری۔ 
کیسے کیسے قومی سطح کے نام ،قومی اسمبلی کی رکنیت کو ٹھوکر مار کر اسو قت بلدیاتی نظام کا حصہ بنے،ان میں سے موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تھے،جو اس وقت ناظم کی حیثیت میں زیادہ مسرور دکھائی دئیے۔ حالات نے کروٹ بدلی ،جنرل مشرف قصہ پارینہ ہوئے،پارلیمانی نظام دوبارہ متحرک ہوتے ہی بلکہ اختیارات کامرکز بنتے ہی،ان سیاستدانوں کو پارلیمان کی بالا دستی یاد آ گئی اور وہ دوبارہ اس کا حصہ بن گئے۔ تبدیلی کی بنیادپر اقتدار میں آنے والی جماعت فی الوقت عوامی خدمت و بہبود سے کوسوں دور،پاکستان پر واجب الادا قرضوں کی ادائیگی سے نبرد آزما ہے ۔ عوامی فلاح و بہبود اور آسانیاںگھر کے دروازے تک پہنچانے میں اسے جو مشکلات درپیش ہیں اور آئیں گی،ان سے وہ کیسے نبٹ پائے گی،آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر یہ حقیقت ہے کہ موجودہ نظام اور اعداد و شمار میں یہ حکومت کوئی انقلابی تبدیلی لانے کے پوزیشن میں قطعی نہیں۔  یہاں دوسرا امر اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہے،جو یقینی طور پر بلدیاتی نظام یا پھر چھوٹے انتظامی یونٹ بنا کر ہی ممکن ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایک شخص یا باڈی پنجاب جیسے بڑے صوبے کا انتظام سنبھال سکے،یہ واقعتاً ملک کی ضرورت ہے،جس میں کسی کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیراختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے جا سکتے ہیں۔اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے بعد،بعینہ مشرف دور کی طرح، موجودہ قومی اسمبلی کے اکثریتی ارکان کا موقف فوری طور پر بدل جائے گا اور انہی ارکان کی اکثریت اپنی نشستوں کو چھوڑ کر طاقت وپیسے والی پوزیشن کی طرف جاتی دکھائی دے گی۔ اس صورت میں کم ازکم ایک فائدہ ضرور ہو گا کہ پارلیمان میں ایسے لوگوں کے آنے کی امید پیدا ہو گی جو واقعتاً پارلیمان کے تقدس کو سمجھتے ہوں،اس کی کارکردگی کی اہمیت سے آگاہ ہوں،قانون اور قانون سازی کو سمجھتے ہوں،قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہوں،قانون کی بالا دستی ان کے پیش نظر ہوکیونکہ جمہوریت و پارلیمانی نظام کی یہی مسلمہ روایات ہیں۔ علاوہ ازیں ریاستی مشینری گو ان چھوٹے انتظامی یونٹس کے ماتحت ہو گی لیکن تقرری و تبادلے کا اختیار قطعی ان کے پاس نہیں ہونا چاہئے اور ریاستی مشینری کی تقرری و تبادلہ ان کی کارکردگی سے مشروط ہو۔ بظاہر یہ کٹھن کام نظر آتا ہے مگر اسی انتظام کے تحت ہی ملکی مسائل حل ہوں گے دوسری طرف ریاستی مشینری کو بھی ،ریاست کی خاطر،اپنے فرائض اور حلف کی پاسداری کرنا ہوگی۔یہ تمام تبدیلیاں،تبدیلی سرکار کے منشور کا حصہ ہیں مگر ان کے روبہ عمل ہونے میں جو دشواریاں ہیں،ان سے کسی طور صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ تبدیلی سرکار جس تیزی کے ساتھ مصلحتوںکا شکار ہو رہی ہے،اس سے بعید نہیں کہ وہ اپنے بنیادی منشور سے ہی منحرف ہو جائے۔ سمجھوتوں میں آئی تبدیلی سرکار ،ہمیشہ سے اقتدار کے پجاریوں میں گھری اوروہی پرانے چہرے نئی قیادت کے ماتحت اپنے کھیل کھیلنے سے باز نہیں آ رہے،تبدیلی کا نعرہ ان کے ذاتی مفادات کی گرد میں دبتا جا رہا ہے کہ خوشامدی ٹولہ پوری طاقت کے ساتھ بروئے کار ہے اور قیادت کو حقائق سے بے خبر رکھے ہوئے ہے۔ پہلے 100کی کارکردگی بھی صرف ڈرامہ ہی ثابت ہوئی کہ کسی بھی وزیر کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی ہوئی اور نہ ہی کسی کا قلمدان تبدیل کیا گیا۔ گھاگ سیاستدانوں کی موجودگی میں اصلاحات ہونا مشکل ہی نہیں ،ناممکن دکھائی دے رہا ہے اور بعید نہیں کہ واضح اکثریت کے لئے قبل از وقت انتخابات کا ڈول ڈالا جائے ،نظام تبدیل ہو جائے یا لپیٹ دیا جائے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں