Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی دفاعی پوزیشن میں

***ظفر قطب۔ لکھنؤ***
حال میں اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی میں جو انتخابی اتحاد قائم ہوا ہے ۔اگر اس کے ووٹ ذرا بھی ادھر سے ادھر نہ ہوئے تو پھر بی جے پی کے لیے یوپی میں الیکشن جیتنا ناممکن ہوجائے گا۔ جہاں تک بی جے پی کے دعوے ہیں سب ہوا ہوائی ہیں۔ مرکزی وزیر جے پی ندّا جو اترپردیش بی جے پی سیاسی امور کے انچارج ہیں ان کا یہ دعویٰ کہ ہم سابقہ الیکشن سے بہتر 2019ء میں رزلٹ دیں گے انتہائی گمراہ کن ہے کیونکہ وہ یہ باتیں اس طرح کررہے ہیں جسے سیاست کی دنیا کا ذرا بھی علم نہ ہو۔ انہیں یاد کرنا چاہیے کہ جس الیکشن کی وہ بات کررہے ہیں۔ وہ 2014ء کی بات ہے۔ جب مودی لہر تھی لیکن اب وہ لہر ختم ہوچکی ہے۔ اس وقت بی جے پی پورے ملک میں دفاعی پوزیشن میں آچکی ہے اس لیے اب اسے 2019ء کے سفرکو آسان نہیں سمجھنا چاہئے ۔سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے  اتحاد کے بعد تو مودی کے لیے یوپی میں حالات الٹ گئے ہیں۔2014ء کے پارلیمانی الیکشن کے ووٹوں کا تناسب دیکھیں تو بازی اتحاد کے حق میں جاتی نظر آرہی ہے ۔ ضمنی الیکشن میں شکست اور حال میں ملک کی 5ریاستوں میں ہونیوالے الیکشن میں بی جے پی کی شکست فاش  کے بعد اب جو نئی سیاسی تصویر سامنے ابھر کر آئی ہے وہ موجودہ حالات میں بی جے پی کے خلاف ہے۔اس لیے اب اس کے پاس کوئی ایسی سیاسی چال نہیں بچی ہے جس سے وہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے ووٹ بینک کو کہیں کھسکا سکے۔ بی جے پی اگر گزشتہ الیکشن میں کامیابی کو دہرانا چاہتی ہے تو اسے متحدہ محاذ کے ووٹ بینک میں سیندھ لگاناواحد متبادل بچا ہے۔اس لیے وہ دن رات اسی فکر میں پریشان ہے۔ اس کے لیڈران رات دن یہی سوچتے رہتے ہیں کہ اب کون سا طریقہ اختیار کریں،کہ ان ووٹوں کو منقسم کر دیا جائے ۔اتحاد کے بعد اکھلیش یادو اور مایاوتی نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ان کی پارٹیاں ریاست میں 38-38 سیٹوں پر الیکشن لڑیں گی۔ امیٹھی اور رائے بریلی میں متحدہ محاذ کا کوئی بھی امیدوار الیکشن نہیںلڑے گا، ان دونوں سیٹوں کو وہ مسز سونیا گاندھی اور راہول گاندھی کیلئے چھوڑ دیں گی ۔اسی طرح سماج وادی بی ایس پی اتحاد نے لوک دل کیلئے بھی 2 سیٹیں چھوڑدی ہیں۔  لوک دل کے لیڈر جینت چودھری نے لکھنؤ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ میں اکھلیش یادو سے برابر ملاقات کررہا ہوں توقع ہے کہ وہ اس سلسلے میں مزید غور کرکے ہمیں کچھ اور سیٹیں دیں گے۔ ان کے مطابق اکھلیش کا رویہ اتنا لچک دار ہے کہ وہ کچھ سیٹیں اپنے کوٹے سے ہمیں ضرور دیں گے لیکن پھر جینت چوہدری نے یہ بھی کہا کہ ہمارے لیے سیٹوں سے زیادہ اکھلیش یادو سے بہتر تعلقات قائم کرنا ضروری ہیں۔ اس طرح انہوں نے بی جے پی کو یہ اشارہ دے دیاہے کہ ہم کسی طرح بھی متحدہ محاذ سے دور نہیںہوناچاہتے، اب 2019ء کے عام الیکشن میں دونوں پارٹیاں جو حکمت عملی اپنائیں گی اس میں سب سے  پہلے اس پر غور کیا جائے گا کہ 2014ء میں دونوں پارٹیوں کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب کیا تھا۔پھر اسی بنیاد پر ہی سماج وادی اور بی ایس پی کے درمیان سیٹوں کی تقسیم ہوگی۔ جن سیٹوں پر سماج وادی اور بی ایس پی کے امیدوار دوسرے نمبر پر تھے متحدہ محاذ میںوہ سیٹیں اسی پارٹی کے حق میںجائیں گی۔ اگر ماضی پر نظر ڈالیںتو 2014 ء کے پارلیمانی الیکشن میں سماج وادی پارٹی کے 5امیدوار الیکشن جیت کر پارلیمنٹ میں پہنچے تھے ۔ ان میں بدایوں سے دھرمیندر یادو، قنوج سے ڈمپل یادو، مین پوری و اعظم گڑھ سے ملائم سنگھ یادو اور فیروز آباد سے اکھشے یادوکامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ 31سیٹوں پر پارٹی کے امیدوار دوسرے نمبر تھے۔ اس الیکشن میں سماج وادی پارٹی کو مجموعی طور پر 22.2 فیصد ووٹ ملے تھے، اس کے برخلاف جب ہم بی ایس پی کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں وہ اگرچہ کوئی سیٹ حاصل نہیںکرپائی تھی لیکن اس کے 34 امیدوار دوسرے نمبر پرتھے اور پارٹی کو تقریباً بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔اس طرح دونوں پارٹیوں کے ووٹوں کو ملا دیا جائے تو 42.2ووٹ ہوجاتے ہیں جو ہندستان میں آج تک کسی پارٹی کو اتنے ووٹ نہیں ملے ہوں گے اس لیے انہیں کسی اور پارٹی کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی۔ گزشتہ الیکشن میں کانگریس کو بھی 7.5 فیصدووٹ ملے تھے اور اگر اسے سماج وادی اور بی ایس پی کے ساتھ ملا دیا جائے تو ووٹوں کا تناسب 49.7ہوجائے گا۔ ایسے میں اس اتحاد کو ہرانے میں بی جے پی کو لوہے کے چنے چبانے پڑ جاتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔اس کے باوجود بھی حالات پر نظر ڈالی جائے تومنظر نامہ بہت کچھ بدلا ہواہے۔ اس بار 5ریاستوں میں حال میں جو الیکشن ہوئے ہیں اس میں کانگریس کی بہتر کارکردگی سے اس میں بڑا جوش ہے۔ اسی طرح جب ہم بی جے پی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کے حالات  دگرگوں نظر آتے ہیںجو کہیں سے بھی مثبت پہلوکے متحمل نہیںبلکہ منفی ہیں۔ اس پر لگنے والے بدعنوانی کے الزامات اتنے سنگین ہیں کہ وہ جس طرح سے خود کو اس دلدل سے نکالنا چاہتی ہے تو اس سے کہیں زیادہ وہ پھنستی جارہی ہے۔ 
 

شیئر: