Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن مجید کا عددی اعجاز

 اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاظتی انتظام سے ہے

 

محمد حفیظ اللہ۔ملتان

    قرآن حکیم کا دعویٰ ہے کہ اس میں کوئی باطل بات داخل نہیں ہوسکتی۔ 
    اس لئے کہ قرآن حکیم کا ایک ایک حرف اتنی زبردست کیلکو لیشن اور اتنے حساب و کتاب کے ساتھ اپنی جگہ پر فٹ ہے کہ اسے تھوڑا سا اِدھر اُدھر کرنے سے وہ ساری کیلکو لیشن درہم برہم ہوجاتی ہے جس  کے ساتھ قرآنِ پاک کی اعجازی شان نمایا ں ہے۔
    اتنی بڑی کتاب میں اتنی باریک کیلکولیشن کا کوئی رائٹر تصور بھی نہیں کرسکتا۔
     بریکٹس میں دیئے گئے یہ الفاظ بطور نمونہ ہیں ورنہ قرآن کا ہر لفظ جتنی مرتبہ استعمال ہوا ہے وہ تعداد اور اس کا پورا بیک گراؤنڈ اپنی جگہ خود علم و عرفان کا ایک وسیع جہان ہے۔
    ٭  دنیا کا لفظ اگر 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو اس کے مقابل آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ وعلی ھٰذ القیاس۔
    (دنیا وآخرت:115) ۔
    (شیاطین وملائکہ:88)۔
    ( موت وحیات:145)۔
    (نفع وفساد:50)۔
    (اجرو فصل108) ۔
    (کفروایمان :25
    (شہر:12) کیونکہ شہر کا مطلب مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہی ہوتے ہیں۔
     اور یوم کا لفظ 360 مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔
    اتنی بڑی کتاب میں اس عددی مناسبت کا خیال رکھنا کسی بھی انسانی مصنف کے بس کی بات نہیں، مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی…
    ٭  جدیدترین ریسرچ کے مطابق قرآن حکیم کے حفاظتی نظام میں 19 کے عدد کا بڑا عمل دخل ہے ۔
    اس حیران کن دریافت کا سہرا ایک مصری ڈاکٹر راشد خلیفہ کے سر ہے جوامریکہ کی ایک یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے۔
1968 ء میں انہوں نے مکمل قرآنِ پاک کمپیوٹر پر چڑھانے کے بعد قرآنِ پاک کی آیات ،ان کے الفاظ و حروف میں کوئی تعلق تلاش کرنا شروع کردیا ۔رفتہ ،رفتہ اور لوگ بھی اس ریسرچ میں شامل ہوتے گئے حتیٰ کہ 1972ء میں یہ ایک باقاعدہ اسکول بن گیا۔
    ریسرچ کاکام جونہی آگے بڑھا، ان لوگوں پر قدم قدم پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔قرآنِ حکیم کے الفاظ و حروف میں انہیں ایک ایسی حسابی ترتیب نظر آئی جس کے مکمل ادراک کیلئے اُس وقت تک کے بنے ہوئے کمپیوٹر ناکافی تھے۔
    کلام اللہ میں 19 کا ہندسہ صرف سورہ مدثر ،آیت30 میں آیا ہے جہاں اللہ نے فرمایا:
    ’’دوزخ پر ہم نے 19 محافظ فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے۔‘‘
     اس میں کیا حکمت ہے یہ تو رب ہی جانے لیکن اتنا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے کہ 19 کے عدد کا تعلق اللہ کے کسی حفاظتی انتظام سے  ہے۔
    پھر ہر سورت کے آغاز میں قرآنِ مجید کی پہلی آیت بسم اللہ کو رکھا گیا ہے ۔گویا کہ اس کا تعلق بھی قرآن کی حفاظت سے ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں بسم اللہ کے کل حروف بھی 19 ہی ہیں۔
     پھر یہ دیکھ کر مزید حیرت میں اضافہ ہوتا ہے کہ بسم اللہ میں ترتیب کے ساتھ 4 الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں ریسرچ کی تو ثابت ہوا کہ اسم  پورے قرآن میں 19 مرتبہ استعمال ہوا ہے۔
     لفظ الرحمن 57 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو3×19 کا حاصل ہے اور  لفظ الرحیم  114 مرتبہ استعمال ہو ہے جو 6×19 کا حاصل ہے اور لفظ اللہ پورے قرآن میں 2699 مرتبہ استعمال ہوا ہے جو 142×19 کا حاصل ہے …لیکن یہاں بقیہ ایک رہتا ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ اللہ کی ذات پاک کسی حساب کے تابع نہیں، وہ یکتا ہے۔
    قرآن مجید کی سورتوں کی تعداد بھی 114 ہے جو 6×19 کا حاصل ہے۔
     سورہ توبہ کے آغاز میں بسم اللہ نازل نہیں ہوئی لیکن سورہ نمل آیت نمبر 30 میں مکمل بسم اللہ نازل کرکے  19 کے فارمولا کی تصدیق کردی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حسابی قاعدہ فیل ہوجاتا۔
    ٭  اب آئیے، حضور علیہ السلام پر اترنے والی پہلی وحی کی طرف : یہ سور علق کی پہلی 5 آیات ہیں اور یہیں سے 19 کے اس حسابی فارمولے کا آغاز ہوتا ہے!
    ان 5 آیات  کے کل الفاظ 19 ہیں اور ان 19 الفاظ کے کل حروف  76 ہیں جو ٹھیک 4×19 کا حاصل ہیں لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،جب سورہ علق کے کل حروف کی گنتی کی گئی تو عقل تو ورطہ حیرت میں ڈوب گئی کہ اسکے کل حروف 304 ہیں جو 4×4×19 کا حاصل ہیں۔ 
     اور سامعین کرام !
    عقل یہ دیکھ کر حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں مزید ڈوب جاتی ہے کہ قرآنِ پاک کی موجودہ ترتیب کے مطابق سورہ علق قرآن پاک کی 96 نمبر سورت ہے۔ اب اگر قرآن کی آخری سورت والناس کی طرف سے گنتی کریں تو اخیر کی طرف سے سورہ علق کا نمبر 19 بنتا ہے اور اگرقرآن کی ابتدا سے دیکھیں تو اس 96 نمبر سورت سے پہلے 95 سورتیں ہیں جو ٹھیک 5×19 کا حاصل ضرب ہیں جس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ سورتوں کے آگے پیچھے کی ترتیب بھی انسانی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حسابی نظام کا ہی ایک حصہ ہے۔
    ٭  قرآنِ پاک کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورہ نصر ہے۔
 یہ سن کر آپ پر پھرایک مرتبہ خوشگوار حیرت طاری ہوگی کہ اللہ پاک نے یہاں بھی 19 کا نظام برقرار رکھا ہے ۔پہلی وحی کی طرح آخری وحی سورہ نصر ٹھیک 19 الفاظ پر مشتمل ہے۔ یوں کلام اللہ کی پہلی اور آخری سورت ایک ہی حسابی قاعدہ سے نازل ہوئیں۔
    ٭  سورہ فاتحہ کے بعد قرآن حکیم کی پہلی سورت سورہ بقرہ کی کل آیات 286 ہیں ۔ 2 ہٹادیں تو مکی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔  6 ہٹا دیں تو مدنی سورتوں کی تعداد سامنے آتی ہے۔ 86 کو 28 کے ساتھ جمع کریں تو کل سورتوں کی تعداد 114 سامنے آتی ہے۔
    آج جبکہ عقل وخرد کو سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے ،یہی قرآن پھر اپنا چیلنج دہراتا ہے۔
     حسابدان، سائنسدان، ہر خاص وعام مومن، کافر سبھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ آج بھی کسی کتاب میں ایسا حسابی نظام ڈالنا انسانی بساط سے باہر ہے۔ طاقتور کمپوٹرز کی مدد سے بھی اس جیسے حسابی نظام کیمطابق ہر طرح کی غلطیوں سے پاک کسی کتاب کی تشکیل ناممکن ہوگی لیکن 14 سو سال پہلے تو اس کا تصور ہی محال ہے لہذا کوئی بھی صحیح العقل آدمی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ قرآنِ کریم کا حسابی نظام اللہ کا ایسا شاہکا ر معجزہ ہے جس کا جواب قیامت تک کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔

مزید پڑھیں:- - - -  -دوستی ، دشمنی کی بنیاد ، اللہ تعالٰی کی رضا

شیئر: