Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بے چینی کی فضا دور کرنیکی ضرورت

***صلاح الدین حیدر***
جمہوریت ہو یا فسطائیت ڈکٹیٹر شپ خواہ فوجی ہو یا سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں سے جلی بھنی، سب ہی کسی نہ کسی انداز میں فضولیات سے پُر ہوتی ہیں۔ آپ انہیں دائو پیچ کہیں یا اور کوئی اور نام دیں، اس سب میں اچھائی کم، برائی زیادہ ہوتی ہیں لیکن ان سے چھٹکارا بھی نہیں مل سکتا۔ جمہوری تحریک کی ابتداء اس وقت سے ہوئی جب سے بحث و مباحثہ کا سلسلہ چلا، وقت کے ساتھ ساتھ، یہ برطانیہ اور دوسرے کئی مغربی ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی، کہیں فنا ہوگئی، کہیں برائے نام رہ گئی  لیکن پاکستان میں ملٹری حکومتیں بھی جو کہ 30 سال سے بھی زیادہ برسراقتدار رہیں جمہوریت کا سہارا لیے بغیر زندہ نہ رہ سکیں۔ جمہوریت لاکھ بری سہی، لیکن آمریت سے کہیں بہتر ہے۔ اس میں عوام الناس کی شراکت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ ایوب خان نے 80,000 غیر سیاسی لوگوں کی حمایت حاصل کی، جنہیں بنیادی جمہوریت کے نمائندوں کا نام دیا اسکے ذریعے اپنے دور اقتدار کو دوام بخشنے کی ناکام کوشش کی اور بالاخر عوامی غیض و غضب کے بعد رخصت ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق نے غیر سیاسی بنیادوں پرپارلیمانی انتخابات کرا کر جمہوریت کا چہرہ بگاڑ دیا لیکن خود اپنے ہی چنے ہوئے سیاستدان محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا اور ڈھائی سال کے بعد اپنے ہی ہاتھوں سے انہیں نکال پھینکا۔ جنرل پرویز مشرف نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے نمائندوں کو چن کر بھان متی کا کنبہ بنایا لیکن وہ بھی ان کے اقتدار کو استحکام بخشنے میں ناکام رہا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت جمہوری اصولوں کی طرح چلائی جائے تو صحیح چلتی ہے ورنہ اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔ انتخابات کے ذریعے وجود میں آئی ہوئی حکومت لاکھ بری سہی، اس پر پھر بھی عوامی حمایت کا ٹھپہ لگا ہوتا ہے اس لیے وہ تمام تر کامیابیوں کے باوجود عوامی نمائندگی کا حق رکھتی ہے۔ خود ہی غور کر لیں کہ آصف زرداری 2008ء میں صدر مملکت بنے۔ عوام کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ اپنی ہی دولت بڑھاتے رہے لیکن 5 سال پورے کیے اور اس کے بعد اس کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے کہ 2013ء کے الیکشن میںجیتنے والی جماعت ن لیگ کو اقتدار بلا تکلف سونپ دیا۔ یہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ہوا ہے اور ن لیگ کی حکومت نے 2013ء میں انتخابات جیتنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار سونپ کر جمہوریت کی خدمت کی، جس کی تعریف کرنی چاہیے۔ برطانیہ میں جمہوریت 850 سال پرانی ہے لیکن پارلیمان کی جو قدر و قیمت وہاں ہے اس کی اچھی خاصی شکل ہمیں ہندوستان میں نظر آتی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کو جڑ پکڑنے میں وقت لگے گا لیکن پچھلے 10 برسوں نے اچھی روایت قائم ہوتی جارہی ہے۔ اللہ کرے ان میں خلل نہ پڑے۔
اس وقت بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ہر طرف سے تنقید ہورہی ہے۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی آپس میں یکجا ہونے جارہی ہیں لیکن ایک بات تو بہت واضح ہے کہ آصف زرداری ہی صرف اتحاد کا لفظ استعمال کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ن لیگ کسی اتحاد کی بات نہیں کرتی، ہاں آپس میں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ نواز اور زرداری کے درمیان بھی ملاقات کی افواہیں ہیں، دکھائی تو نہیں دیتا مگر سیاست میں سب کچھ ممکن ہے۔ جو بات پیش نظر رکھنی چاہیے وہ ہے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی حرکتیں۔ وہ پچھلے سال جولائی میں بری طرح شکست کھاکر کے سیاست کو محض زندہ رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ میرے اور کئی دوسرے مبصرین کے خیال میں تو ان کی سیاست کے دن پورے ہوچکے، مگر مولانا صرف اسلام آباد میں 4 دینی مدارس کے منتظمین ہیں، ڈیرہ اسماعیل خان اور کے پی کے اور دوسرے صوبوں میں ان کے معتقدین کی تعداد 15 ہزار سے 20 ہزار سے بھی زیادہ ہے، اس لیے وہ عمران کو ہٹانے کیلئے سرگرداں ہیں۔ جگہ جگہ جلسے کرتے پھر رہے ہیں۔ زرداری اور نواز کو ملاکر متحدہ اپوزیشن محاذ بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب تک انہیں امید سے بھی کم کامیابی ہوئی ہے لیکن ان کے جلسوں کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ پھر مجھے دیگر تجزیہ نگاروں سے اتفاق ہے کہ اپوزیشن صرف اس لیے ایک ہونے کیلئے کوشاں ہیں کہ ان کے قائدین کو جیل کی سلاخیں نظر آرہی ہیں۔ مقدمات اور قید و بند ان کی قسمت میں لکھی جاچکی ہے۔ اسی لیے آصف زرداری اتنی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں کہ جیل جانے سے بچ سکیں لیکن جہاں ان کیخلاف بے تحاشہ شواہد موجود ہوں اور جے آئی ٹی اور نیب ایک ڈیڑھ مہینے میں یہ سارے کے سارے سپریم کورٹ میں جمع کروا دے گی تو پھر دفاع کرنا مشکل ہوگا۔ عمران نے بھی کچھ ایسے بیانات دیئے جس کی وجہ سے انہیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا لیکن کچھ وزراء حضرات بلا سوچے سمجھے آ بیل مجھے مار کی پالیسی پر کمربستہ نظر آتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اپوزیشن کو پلیٹ میں رکھ کر آپ اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اپوزیشن میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ موجودہ حکومت گرا سکے لیکن احتیاط تو لازمی ہے۔ افسوس ہے کہ نادانی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت تنقید کے تیر کھا رہی ہے۔ وہ اگر اپنے آپ کو سنبھال لے تو مخالفین کے پاس بھی گولہ بارود ختم ہوجائے گا۔اب اندرون ملک بے چینی کی فضاء دورکرنے پر نظر عنایت کی اہمیت پر زور دینے کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی ہر ممکن کوشش کے باوجود زرداری یا فضل الرحمان اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔  فرض محال یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ایک مضبوط اپوزیشن محاذ بن جائے گی تو بھی یہ حکومت بنانے سے تو رہے۔ ان میں آپس میں اتنے جھگڑے فساد ہوں گے کہ اتحاد خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا اس لیے عمران کو ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔
 

شیئر: