Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا قرضوں سے ملکی معیشت کی بحالی ممکن؟

***سید شکیل احمد***
وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کے پیش کردہ منی بجٹ کو پہلی نظر میں ایسا دل کش غازہ بجٹ قرار دیا جاسکتا ہے جس میں سب کچھ موجود ہے۔ بڑی گاڑیوں، سگریٹ اور لگژری آیٹمز پر ٹیکس میں اضافہ، یوریا کی قیمت میں کمی، فائلرز کے بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس کٹوتی ختم اورنان فائلرز کو جائیداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت دینے کے اقدامات کا ہر ایک نے خیرمقدم کیا ہے۔ اس میں سے فائلرز کے بینک ٹرانزیکشن پر کٹنے والی ٹیکس کٹوتی ختم اورنان فائلرز کو جائیداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت دینے کے سوا اس منی بجٹ میں ایسا کچھ نہیں ہے جسے اہم قرار دیا جاسکے۔ یوریا کھاد بنانے والی کمپنیوں میں قدرتی گیس بطور ایندھن بھی استعمال ہوتی ہے اور بطور خام مال بھی۔ قدرتی گیس کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں یوریا کی قیمت میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کی وجہ سے درآمدی یوریا کی قیمت میں ازخود 30 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ اس اضافے کے اثرات کو200 روپے فی بوری کمی سے بھی پوری طرح ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری نے ملک کی معیشت کو جس قدر اور جس تیزی کے ساتھ نقصان پہنچایا ہے، اس کا مداوا  بھی ممکن نہیں۔ بجلی، گیس، پٹرول کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے اور ڈالرکے مقابلے میں روپے کی بے قدری نے عام آدمی کے ساتھ ساتھ کاروباری اور صنعت کار طبقے کی بھی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔ ان عوامل کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے جبکہ مصنوعات کی لاگت و قیمت میں اضافہ ہوا اس کی وجہ سے درآمدات بڑھ رہی ہیں اور ملکی صنعت دم توڑ رہی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے منی بجٹ میں وہی کچھ پیش کیا جس کے خدشات تھے ۔ بینک ٹرانزیکشن پر ٹیکس آئی ایم ایف کی فرمائش پرڈار صاحب نے لگایا تھا جس کی وجہ سے بینکوں میں ڈپازٹ کی شرح تاریخ میں کم ترین سطح پر آگئی تھی۔ وزیر خزانہ اسد عمر کو یہ فیصلہ بینکوں کے دباؤ پر کرنا ہی تھا اور اس سے عام آدمی کو ضرور فائدہ ہوگا مگر یہ فیصلہ عام آدمی کے دباؤ پرنہیں کیا گیا ہے۔ اسی طرح نان فائلرز کو جائداداور گاڑی خریدنے سے روکنے کی وجہ سے ایک متبادل معیشت فروغ پارہی تھی۔ اگر وزیر خزانہ اسد عمر منی بجٹ میں تیل، گیس اور بجلی کے نرخوں میں قابل ذکر کمی کا اعلان کرتے اور روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں دوبارہ ایک سو روپے پر لانے کا اعلان کرتے تو یقیناًاس سے پاکستانی معیشت پر دور رس اثرات مرتب ہوتے۔ وزیر خزانہ اسد عمر جب حزب اختلاف میں تھے تو پٹرول کو 46 روپے فی لیٹر کرنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ اب یہ مطالبہ کہاں کھوگیا؟۔سرکاری پالیسیوں سے اس وقت تو صرف اور صرف ایک ہی احساس ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک پر آئی ایم ایف کی حکمرانی ۔ بہرحال اتنا ہے کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد مہنگائی کا جوسونامی آیا تھا جس سے عوام بری طرح متاثر ہوئے تھے اور اس کا اظہار بھی اس وقت بڑی شدت کے ساتھ پارٹی میں ہوا جب کچھ دنوں قبل پارلیمانی پارٹی کا اجلاس وزیر خزانہ اسد عمر کی زیر صدارت ہوا تھا جس میں پارلیمنٹ کے ارکا ن تحریک انصاف نے بکھرے ہوئے چہروں کے ساتھ اجلاس میں اپنی رائے دی اوریہ واضح کیاکہ تحریک انصاف گذشتہ5 ماہ کے کردار کے دوران ہی انتہائی غیر مقبولیت کے گراف کو چھو رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی اور معیشت بحران ہے۔
 بجٹ کی آمد سے قبل جو خبریں گردش کر رہی تھیں اس میں اس امر کا اظہار کیا جارہا تھا کہ نئے منی بجٹ کے ذریعے مزید ٹیکس عائد کردیئے جائیں گے جس کی وجہ سے ملک میں مزید معاشی بحرانی کیفیت پیدا ہونے کے امکان بڑھ جائیں گے تاہم ایسا نہیں ہوا اس کی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ وزیر خزانہ نے تحریک انصاف کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اپنے ارکان اسمبلی کے بکھرے ہوئے چہروں کو پڑھ لیا بہرحال منی بجٹ میں جہا ں کئی اشیاء پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے وہاں پر کچھ ٹیکسوں میں چھوٹ بھی دی گئی ہے جس کا براہ راست عوام کو فائدہ پہنچے گا ۔ویسے تو ماضی کی حکومتیں بھی یہ نفسیاتی حربہ عوام میں استعمال کرتی رہی ہیں کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ پرانے ٹیکسوں میں اضافہ کر دینے کے باوجود یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ٹیکس پر نئے ٹیکس لگائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی اسی وتیرے کو استعمال کیا اور اب بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ نئے منی بجٹ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ اب پی ٹی آئی کی حکومت کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ معیشت کی بحالی قرضوں کی رقومات سے نہیں کی جا سکتی جس کیلئے ضروری ہے کہ اب ملک میں سرمایہ کاری ہو چنانچہ وزیراعظم عمران خان نے بیرون ممالک کے جتنے دورے کئے ہیں اس میں یہی بات دہرائی گئی ہے کہ ان ممالک کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کررہے ہیں لیکن بات اس وقت بنتی ہے جب سرمایہ کاری شروع ہوجائے حالانکہ دیکھنے میں یہی آ رہا ہے کہ مقامی سرمایہ کار اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کررہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے سیاسی حالات ہیں۔ سیاسی حالات ہی ملک میں ایک بہترین سرمایہ کاری کی فضاء پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے تحریک انصاف پر جس  اعتماد کا اظہار کیا تھا اس کا ایک بنیادی نقطہ یہ بھی تھا کہ عمران خان سے یہ توقع ان کے دعوے کے مطابق کی جا رہی تھی کہ وہ برسراقتدار آکر غیر قانونی طور پر پاکستان سے منتقل کیا جانے والا کالا دھن واپس لے آئیں گے اور ملک کو قرضوں کے بحران سے بھی نجات دلادی گے اور خوشحالی اور ترقی کا دور شروع کر دیں گے لیکن برسراقتدار آنے کے بعد حکومت کو 5 ماہ کا عرصہ پورا ہونے کے باوجود عمران خان لوٹی گئی دولت واپس نہیں لاسکے ۔
عمران خان نے جتنا قرضہ اٹھایا اس کے بعد یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اسکی ادائیگی غریب عوام کی جانب سے کس طرح کی جائے گی اور اتنا ڈھیر سارا قرض لینے کے باوجود اب بھی ان کی حکومت آئی ایم ایف کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں کیا قرضوں کی رقوم سے ملکی معیشت کو خوشحالی کو اور ترقی کو لایا جاسکتا ہے۔
 

شیئر: