Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سرمایہ کاری کےلئے ماحول سازگار ہے؟

*** ڈاکٹر منصور نورانی***
وزیراعظم عمران خان نے بلاشبہ کرکٹ کے بعد طویل عرصہ تک سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کی ہے لیکن کرکٹ کے مقابلے میں اُنہیں میدان سیاست میں کم کم ہی کامیابیاں ملیں۔وہ 22,20سالوں تک صرف اپنی ایڑھیاں ہی رگڑتے رہے۔ جب کامیابی ملی تو بھی اپنی صلاحیتوں کی بجائے پس پردہ کسی غیبی امداد کے سبب۔کرکٹ میں تو اُنہیں شومئی قسمت سے دنیا کے چند بہترین اور نامور کھلاڑیوں یعنی وقار یونس ، وسیم اکرم، انضمام الحق اور جاوید میاں داد جیسے لوگوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی لیکن میدان سیاست میں وہ کوئی قابل اور عمدہ ٹیم ابھی تک نہیں بناپائے ۔کسی سیانے نے درست ہی کہا ہے کہ آدمی کی قابلیت اور اہلیت کا پتا تب ہی چلتا ہے جب اُسے کسی ادارے، محکمہ یا ریاست کا مکمل اختیار دیدیا جائے۔خان صاحب وزیراعظم بن جانے کی تمناتوعرصہ دراز ہی سے کرتے رہے ہیں لیکن جب قدرت نے اُن پر مہربانی فرماکراُن کی اِس دلی تمنا اور آرزو کو پورا کردیاتو وہ خود کو اُس کا اہل ثابت نہیں کرپارہے۔اُنہوں نے اپنے ارد گرد جن لوگوں کا مجمع سجا لیا  اُن میں شاید ہی کوئی ایک اِس قابل ہو جو مملکت کے پیچیدہ امور بطریق احسن ادا کرپائے۔خان صاحب کی مجبوری ہے کہ اُنہیں عمومی طور پر شوریدہ صفت لوگ ہی پسند ہیں۔ ایسے لوگ جو صبح و شام اپوزیشن کو لعن و طعن کانشانہ بناتے رہیں اور اُن سے بلاوجہ الجھتے رہیں۔ سنجیدہ اور شائستہ مزاج لوگ خان صاحب کی سوچ کے مخصوص فریم ورک میں فٹ نہیں بیٹھتے۔یہی وجہ ہے کہ فواد حسین چوہدری، فیاض الحسن چوہان ، مراد سعید، فیصل واڈا اورعلی زیدی اور شیخ رشید جیسے غیر سنجیدہ لوگ اُن کی موجودہ ٹیم کا ہراول دستہ بنے ہوئے ہیں۔جس شخص کو وہ وسیم اکرم پلس سمجھتے ہوئے اِس ملک کے سب سے بڑے صوبے کی ذمہ داری سونپ دیتے ہیںاُس کے انداز حکمرانی نے تو اسلم رئیسانی اور قائم علی شاہ کو بھی مات دیدی ۔پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا وزیراعلیٰ آج تک گزرا ہوگا جو کسی کی ناگہانی موت پر تعزیت کیلئے جاتے ہوئے گلدستہ لے جائے۔ ہمیں تو حیرانی اِس بات پر ہے کہ ایسا کرنے سے نہ اُسکی عقل وفہم نے اُسے روکا اور نہ اُسکی خدمت پر  مامور کسی  اہل کار نے۔
خان صاحب کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔وہ اِسے بھی ڈی چوک پر سجایا جانے والا دو ڈھائی گھنٹے کا کوئی میوزیکل ایونٹ سمجھ بیٹھے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ مینار پاکستان پر منعقد کردہ چند گھنٹوں کا عوامی پاور شو۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم بن جانے کے باوجودابتدائی دنوںمیں اُن کی باڈی لینگویج سیاسی جلسہ کے کسی پرجوش مقررسے قطعی مختلف نہ تھی۔پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میںاُن کا یہی اسٹائل اور طرز تخاطب نمایاں ہورہا تھا۔یہ تو میڈیا والوں کی مہربانی ہے کہ اُنہوں نے تنقید کرکرکے اُنہیں اپنے وزیراعظم بن جانے کا احساس اور یقین دلایا اورشائستہ اسلوب اپنانے پر مجبور کیا۔کابینہ کے چناؤ میں بھی اُنہوں نے ایسے ہی لوگوں کو ترجیح دی جو 126دنوں کے دھرنے والے دنوں میں اُن کیلئے جھوٹ پرمبنی تقریری مواد جمع کرنے میں بھر پور معاون اور مددگار ثابت ہوتے تھے۔ایسے لوگوں کو حکومتی مسائل سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہ تھا۔وہ محض الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں سے ہی خان صاحب کی نظروں میں مخلص اور معتبر بنانے کی کوششیں کیاکرتے تھے مگر اب جب کارکردگی دکھانے کاوقت آیا ہے تو وہ اپنے نامہ اعمال میں کوئی کارنامہ درج نہیں کرپارہے۔خود خان صاحب کو بھی چونکہ ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھاشاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کرپارہے۔ ملکی معیشت کی خستہ حالی کو وہ صرف قرضوں اور امداد کے ذریعے درست کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔اپنے وسائل اورذرائع سے کسی منصوبے پرعمل پیرا ہونے کی کوئی تجویز کابینہ کے سامنے ہنوززیر غور نہیں ۔ملکی خزانے میں اتنے چھید ہوچکے ہیں کہ قرضوں سے ملنے والی ساری امداد کسی اطمینان بخش سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی فوراً اِن چھیدوں سے باہر نکل جاتی ہے۔ایک جانب افراط زر بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب جی ڈی پی کی شرح مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔تجارتی خسارہ اور گردشی قرضے ہیں کہ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ایک سال میں 3,3 بجٹ پیش کرنے کے باوجود ریونیو میں اضافے کی بجائے مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے۔کوئی تدبیر یاکوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہوپارہی۔نواز دور کے بیشتر ترقیاتی کام روک دئیے گئے  مگر خسارہ ہے کہ قابو میں نہیں آرہا۔۔تمام دوست ممالک سے جتنی امداد مل سکتی تھی وہ ہم نے صرف 6ماہ میں ہی حاصل کرلی ۔ اب باقی ساڑھے 4 سال نجانے کیسے گذریں گے؟
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
  رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ایک طرف ملک کو درپیش سنگین مالی بحران کا سامنا ہے تودوسری جانب اداروں اور محکموں کے ناقص کارکردگی۔پی آئی اے اور اسٹیل ملزاور کئی سرکاری ادارے مسلسل بوجھ بنتے جارہے ہیں۔اُنہیں ٹھیک کرنے یا بہتر بنانے کی کوئی تدبیر ہماری کابینہ کے زیر غور نہیں ۔بجلی اور گیس کا بحران جوکسی حد تک نواز دور میں حل ہوگیاتھاحکومتی نااہلی سے پھرسر اٹھانے لگا ہے۔روپے کی قدر کم ہونے کی سبب مہنگائی اورگرانی کا طوفان ہمارے سروں پرآکھڑا ہے۔ملک بھر میں بے روز گاری بڑھتی جارہی ہے۔ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ماحول ابھی تک سازگار نہیں ہو پایا ہے۔غیر یقینی صورتحال کے سبب مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔100دنوں میں کارکردگی دکھانے کا دعویٰ کرنے والے6 ماہ میں بھی کچھ نہ کرسکے۔اپنے حالیہ اصلاحتی پیکیج میں بھی وہ کوئی انقلابی منصوبہ پیش نہیں کرسکے اور نہ ہی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی کوئی معقول تجویز سامنے لاسکے ۔وہ اگر بہتری نہیں لاسکتے تھے تو کم از کم سابقہ دور کی حاصل کردہ کامیابیوں ہی کو برقرار رکھتے۔
قرضوں اور امدا د پر کوئی رفاہی ادارہ یا ہسپتال تو یقینا چلایا جاسکتا ہے لیکن22 کروڑنفوس پر مشتمل کوئی ملک نہیں چلایاجاسکتا ۔اِس کیلئے انقلابی اقدامات کی ضرور ت ہوا کرتی ہے۔ملک چلانا اور 11باصلاحیت کھلاڑیوں پر مبنی کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہونا دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔پاکستان کے نئے کپتان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مسائل میں گھرے کسی ملک کو کرکٹ ٹیم کی طرح نہیں چلایاجاسکتا ۔یہاں قدم قدم پر بڑی بڑی مشکلیں درپیش ہوتی ہیں۔ آئین و دستور کے تابع ہونا پڑتا ہے۔داخلی اور بیرونی دباؤ کاسامنا بھی ہوتا ہے۔مالی اور معاشی مسائل سے بھی نبردآزما ہونا پڑتا ہے۔یہ کوئی ایک روزہ یا5 روزہ کرکٹ میچ نہیں ہواکرتاجہاں محض چند گھنٹوں میں ہار یاچیت کا فیصلہ ہوجائے۔یہاں تو پورے 5 سال تک کیلئے سارے ملک کے ذمہ داری اکیلے ایک شخص پرہوتی ہے اور اُسے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا بھی منوانا ہوتا ہے۔بصورت دیگر عوام کے ردعمل یاغیض وغضب کیلئے اُسے تیار رہنا ہوتا ہے۔
 

شیئر: