Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئے دروازے

***جاوید اقبال***
میں ابھی تک 2013ء کے وسط کی وہ تپتی دوپہر یں نہیں بھول پایا جب پاکستان انٹرنیشنل اسکول ناصریہ ریاض میں میرے ہموطنوں کا اژدہام ہوا تھا۔ چہروں پر امید و بیم کی کیفیت لیے اور ہاتھوں میں دستاویزات کی فائلیں اٹھائے وہ مختلف صفوں میں لگے ہوتے۔ ہر قطار کے آغاز پر میز کرسی لگائے کسی کمپنی کا سعودی نمائندہ ایک ایک کر کے ان کی دستاویزات کا معائنہ کرتا، ان سے مختصر گفتگو کرتا اور پھر ان کے کوائف اپنے سامنے رکھی فہرست میں درج کرلیتا، بڑے پر شور اور بے چین ایام تھے۔ صبح 8 بجے سے سہ پہر 4 بجے تک ہجوم رہتا۔ وہ سب ایسے پاکستانی ہوتے جن کے اقامے مدتِ صلاحیت پوری کرچکے ہوتے اور کفیل تجدید کرانے میں متردد ہوتا یا جن کے کاروبار پر کفیل قابض ہوکر انہیں مفرور قرار دے چکا ہوتا یا جو آزاد ویزوں پر آئے ہوتے اور اب بے یار و مددگار قانونی شناخت کے طلبگار ہوتے۔ سعودی حکومت نے ان غیر قانونی تارکین کو ایک مقررہ مدت کی مہلت دے کر انہیں اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ یا نئے کفیل کی چھتری تلے آجائیں یا ملک چھوڑ جائیں۔ لاکھوں تھے جنہیں کئی بکھیڑوں کا سامنا تھا۔ چنانچہ سفارتخانے نے فیصلہ کیا کہ ایسے بے یار و مددگار لوگوں کی مدد کے لئے جاب فیر کا انعقاد کیا جائے۔ اعلان ہوا اور ہزاروں اُمنڈ آئے۔ جب روزگار کے اس میلے کا اختتام ہوا تو سعودی وزارت محنت اور پاسپورٹ سیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے 9 لاکھ پاکستانی اپنا قیام قانونی کرانے کے بعد نئی کفالتوں کے تحت آچکے تھے۔
پھر پاکستانی تارکین کو ایک اور بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی حکومت نے بھی غیر قانونی تارکین کو اجازت دی کہ وہ ایک معینہ مدت کے اندر مملکت سے واپسی کا سفر اختیار کرلیں اور اپنے آپ کو جرمانے یا سزا سے بچالیں۔ سفارتخانہ پاکستان کا آڈیٹوریم ایسے غیر قانونی افراد کیلئے کھول دیا گیا۔ ایک اژدہام ہر صبح ہوجاتا جسے سنبھالنے کیلئے کمیونٹی ویلفیئر اتاشیز شیخ عبدالشکور اور محمود لطیف ہلکان ہوتے رہتے۔ ان دونوں کو عجب مسائل سے پالا پڑتا جن کے حل وہ انتہائی دانشمندی سے نکالتے۔ تب بھی لاکھوں نے سفارتخانے کی وساطت سے وطن کو جانے والی پروازیں پکڑ لی تھیں۔
یہ بھی عجب کہانی ہے۔ 70ء کی دہائی میں جب وطن عزیز میں ’’دبئی چلو‘‘ کا نعرہ لگا تو محنت کش مختصر سا زاد راہ اٹھائے خلیج کی طرف چلے۔ اگلی 2 دہائیوں میں ان صحرائوں کو دلہن بنادیا گیا اور اس میں صد فی صد پاکستانی افرادی قوت کی مساعی کو دخل تھا۔ 80ء کی دہائی کے اختتام پر تعمیرات تقریباً اختتام کو پہنچ چکی تھیں اس لیے دوسرے ممالک سے آئی افرادی قوت کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اب یہ عربوں کی اخلاقی اور ثقافتی اقدار کا حصہ ہے کہ وہ کبھی مہمانوں کو جانے کا نہیں کہتے۔پھر ہزاروں دوسرے بھی خلیج کے ہوائی اڈوں پر اترتے رہے۔ بغیر کفالت کے گزر اوقات کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔ 71ء کے زمانے میں جو پاکستانی ہزاروں میں تھے آج لاکھوں میں ہیں۔ ان برسوں میں میزبان ممالک کی اپنی نوجوان نسل بھی ملازمتیں سنبھالنے کیلئے تیار ہوچکی ہے۔ تارکین وطن پر اقتصادی دبائو نئی صورتحال کو جنم دے چکا ہے چنانچہ ہمارے یہ ہموطن پردیسی اب واپسی کا سفر اختیار کررہے ہیں۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ برس میں لاکھوں نے مملکت سے مستقل واپسی کے لیے پروازیں لی ہیں۔ مملکت میں مقیم تقریباً 26 لاکھ پر مشتمل پاکستانی افرادی قوت نے بخوبی سمجھ لیا ہے کہ اب غیر قانونی طور پر مقیم ان کے ناز نخرے مزید برداشت نہیں کیے جائیں گے۔
قطر صرف 3 برس بعد فٹ بال کے عالمی کپ ٹورنامنٹ کی میزبانی کررہا ہے۔ ان مقابلوں کیلئے 12 اسٹیڈیم استعمال کیے جائیں گے۔ ان میں سے 9 تو جدید تعمیر ہوں گے جبکہ 3 پرانوں کی مرمت وغیرہ کر کے انہیں قابل استعمال بنایا جائے گا۔ عالمی کپ کے اختتام پر ان کی شکست و ریخت کر کے حصے 2026ء کے عالمی مقابلوں کے انعقاد کیلئے میزبان ملک ارسال کردیے جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر امیر قطر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے ایک لاکھ پاکستانی محنت کشوں کو قطر میں روزگار دینے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اس پاکستانی افرادی قوت کو نئے اسٹیڈیم تعمیر کرنے اور پھر ان کی شکست و ریخت پر لگایا جائے گا۔ گویا ان ایک لاکھ کارکنوں کی 2023ء تک ضرورت رہے گی جس کے بعد ہمارے یہ ہموطن بے روزگار ہوجائیں گے۔ تو پھر یہ لوگ نئے کفیلوں کی تلاش میں دربدر ہوں گے، ہوسکتا ہے کہ ان کی اکثریت غیر قانونی ہوکر مقامی حکام سے اپنا آپ مخفی رکھے نان جویں کماتی رہے۔ اپنے وطن کی عزت پر حرف لاتی رہے!
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ جو ایک لاکھ آرہے ہیں یہ حکومت قطر اور حکومت پاکستان کے باہمی سرکاری معاہدے کے تحت آئیں۔ ان کیلئے خصوصی رہائش کا انتظام کیا جائے جہاں انہیں دوحہ کے ہوائی اڈے سے سیدھا لے جایا جائے۔ انہیں قطر کی حکومت ذرائع نقل و حمل فراہم کرے اور ان کے عرصہ کار کے اختتام پر انہیں نہایت ادب و احترام سے دوحہ کے ہی ہوائی اڈے پر سے الوداع کہہ دیا جائے؟ قطری حکومت اپنی پرائیویٹ تعمیراتی کمپنیوں پر پابندی لگادے کہ وہ کسی بھی ایسے فرد کو روزگار اور کفالت فراہم نہیں کریں گی جو اس ایک لاکھ کی افرادی قوت کا رکن ہوگا جو پاک قطری معاہدے کے تحت لائی گئی تھی۔ پاکستان اور قطر کے باہمی تعلقات میں احترام و اعتماد کا عنصر غالب ہوجائے گا، کئی نئے دروازے کھل جائیں گے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں