Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہار میں مسلم خاتون کا حجاب زبردستی اتارنے کا عمل ’قابل مذمت‘ اور ’نہایت پریشان کن‘ ہے: اسحاق ڈار

پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے انڈین ریاست بہار کے وزیراعلی کی جانب سے ایک تقریب کے دوران مسلم خاتون کا حجاب زبردستی اتارنے کے عمل کو ’قابل مذمت‘ اور ’نہایت پریشان کن‘ قرار دے دیا ہے۔
بدھ کو ایکس پر جاری بیان میں پاکستان کے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’بہار میں ایک مسلم خاتون کی بے حرمتی سے متعلق شرمناک واقعہ قابلِ مذمت اور نہایت پریشان کن ہے۔ اس طرح کے واقعات اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی فوری ضرورت اور اسلاموفوبیا میں تشویشناک اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں۔‘
اسحاق ڈار نے مزید لکھا کہ خواتین اور مذہبی عقائد کا احترام ہر معاشرے میں ایک بنیادی اور ناقابلِ سمجھوتہ اصول ہونا چاہیے۔
خیال رہے بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے پیر کو اپنے سرکاری رہائش گاہ پر منعقدہ ایک عوامی تقریب کے دوران مسلم خاتون کا حجاب زبردستی اتار دیا تھا جس کے بعد ملک میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔
اس واقعے پر انڈیا میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
یہ تنازع وزیرِ اعلیٰ کی رہائش گاہ پر منعقدہ اس تقریب کے دوران سامنے آیا، جس میں نئے بھرتی ہونے والے ریاستی لائسنس یافتہ روایتی یا متبادل طب کے معالجین کو تقرری کے خطوط دیے جا رہے تھے۔
ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نتیش کمار سٹیج پر نائب وزیرِ اعلیٰ سمراٹ چودھری اور وزیرِ صحت منگل پانڈے کے ساتھ بیٹھے ہیں، جبکہ ڈاکٹروں کو ایک ایک کر کے سٹیج پر بلا کر تقرری کے خطوط دیے جا رہے ہیں۔ جب نصرت پروین تقرری کا خط لینے کے لیے آئیں اور ان کا چہرہ حجاب سے ڈھکا ہوا تھا تو نتیش کمار کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ’یہ کیا ہے؟‘
چند لمحوں بعد وہ آگے جھکتے ہیں اور نصرت پروین کا حجاب نیچے کھینچ دیتے ہیں۔
خاتون واضح طور پر گھبرا جاتی ہیں، جس کے بعد ایک سرکاری اہلکار فوری طور پر انہیں وہاں سے لے جاتا ہے۔
اس ویڈیو کے منظرِ عام پر آتے ہی اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آیا، جنہوں نے وزیرِ اعلیٰ کے طرزِ عمل پر شدید سوالات اٹھائے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل نے ایک بیان میں کہا ’یہ عمل اس خاتون کی عزت، خودمختاری اور شناخت پر حملہ ہے۔ جب کوئی سرکاری عہدیدار زبردستی کسی عورت کا حجاب اتارتا ہے تو یہ عوام کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ایسا رویہ قابلِ قبول ہے۔ کسی کو بھی عورت کے عقیدے یا لباس کی نگرانی کرنے کا حق حاصل نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس طرح کے اقدامات خوف کو بڑھاتے ہیں، امتیازی سلوک کو معمول بناتے ہیں اور برابری و مذہبی آزادی کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ اس سنگین خلاف ورزی کی غیر مبہم مذمت اور ذمہ داران کے احتساب کی ضرورت ہے۔‘
ویڈیو کلپ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر شیئر کرتے ہوئے بہار کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت راشٹریہ جنتا دل نے ہندی میں لکھا کہ ’نتیش جی کو کیا ہو گیا ہے؟ کیا ان کی ذہنی حالت اب مکمل طور پر قابلِ رحم ہو چکی ہے، یا نتیش بابو اب سو فیصد سنگھی بن گئے ہیں۔‘
’سنگھی‘ سے مراد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے رکن ہیں، جو ایک انتہاپسند ہندو قوم پرست تنظیم ہے اور وزیرِ اعظم نریندر مودی کی بی جے پی جماعت سے گہرے طور پر منسلک ہے۔
ملک کی بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی اس واقعے پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’قابلِ نفرت‘ قرار دیا۔
کانگریس نے کہا کہ ’یہ بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار ہیں۔ ذرا ان کی ڈھٹائی دیکھیں، ایک خاتون ڈاکٹر تقرری کا خط لینے آئی تھیں اور نتیش کمار نے ان کا حجاب اتار دیا۔‘

شیئر: