Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب توانائی کا محفوظ اورفرض شناس سرچشمہ

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“ کا اداریہ نذر قارئین ہے
  پوری دنیا میں یہ بات اختلاف سے بالاتر ہوچکی ہے کہ پیٹرول کے حوالے سے سعودی عرب کی صلاحیت غیر معمولی ہے۔ تیل پیدا کرنے والے متعدد ممالک سے اگر سعودی عرب کا تقابل کیا جائے تو ایسی صورت میں سعودی عرب ہی کا قد اونچا نظر آئیگا۔ سعودی عرب نے توانائی کے شعبے کو جدید تر بنانے پر غیر معمولی توجہ صرف کی ہے۔ یہ سعودی وژن 2030کی حکمت عملی سے ماخوذ موجودہ اقتصادی ترقیاتی حکمت عملی کا اہم حصہ ہے۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ تیل کے غیر معمولی ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود سعودی عرب توانائی کے جملہ شعبوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔وہ شمسی توانائی ، ہوا سے بجلی تیار کرنے والی توانائی سمیت دیگر ذرائع پر بھی بھرپور توجہ دے رہا ہے۔غیر جانبدارانہ جائزوںسے پتہ چلا ہے کہ سعودی عرب آئندہ چند برسوں کے دوران نہ صرف یہ کہ شمسی توانائی بڑے پیمانے پر تیار کریگا بلکہ برآمد بھی کرسکے گا۔ جرمنی میں تجدد پذیر توانائی کے ماہر اداروں نے 3برس قبل اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب اس میدان میں خود جرمنی کو بھی مات دے سکتا ہے۔
سعودی عرب کی بابت یہ حقیقت مان لی گئی ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ پیٹرول کے بھاری بھرکم ذخائر محفوظ کئے ہوئے ہے بلکہ وہ بڑے پیمانے پر تیل پیداوار کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اسے برآمد کرنے کی اہلیت بھی۔ اسی کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرلیا گیا ہے کہ تیل کو کھیل کے طور پر استعمال کرنے والی ایران کی پالیسی کو اگر کوئی ملک چیلنج کرتا ہے تو وہ سعودی عرب ہے۔ جب جب عالمی منڈی کو تیل کے حوالے سے کسی قسم کے بحران کا سامنا ہوا تب تب سعودی عرب نے آگے بڑھ کر اس بحران میں اپنا کردارادا کیا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ عالمی سطح پر تیل کے محفوظ ذخائر کے ساتھ سعودی عرب سیاسی سطح پر بھی اپنا عالمی مقام بنائے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے اہم نکتہ یہ ہے کہ سعودی عرب تیل منڈی میں مطلوبہ توازن برقرار رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور اس پر پوری عالمی برادری اسے قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: