Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھاری بھرکم پلمبر سے بھاری بھرکم مکالمہ

ابراہیم علی نسیب ۔ المدینہ
پلمبر سے ہونے والی چلتی پھرتی گفتگو سے پتہ چلا کہ اس کی ماہانہ آمدنی 12ہزار ریال ہے۔ ویسے مجھے شک ہے کہ اس نے مجھے اپنی آمدنی کے صحیح اعدادوشمار نہیں بتائے۔ دماغ یہی کہتا ہے کہ اسکی ماہانہ آمدنی 12ہزار ریال سے زیادہ ہوگی۔ مجھے ذاتی طور پر کسی کے بھی نجی امور میں دخل دینا اچھا نہیں لگتاتاہم صحافی ہونے کی حیثیت سے میری ذمہ داری بنتی ہے کہ میں اپنے وطن اور یہاں کے باشندوں کی دلچسپی والے معاملات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لوں۔ میرے ہموطن ملازمت کی بابت سوچتے رہتے ہیں اور اپنی محدود آمدنی کا رونا روتے رہتے ہیں۔یہ بات بھی پلمبر کی آمدنی کی خفیہ معلومات حاصل کرنے کا محرک بنی۔ہمارے شہری آزادانہ محنت مزدوری کی قدرو قیمت بھول گئے ہیں۔ وہ اس بات کو نہ جانے کیوں نظر انداز کئے ہوئے ہیں کہ ملازمت سے کہیں زیادہ دستکاری اور ہنر مندی سے آمدنی ہوتی ہے۔ میں اپنے ہموطنوں کو اسکا الزام نہیں دونگا۔ الزام تو میں منصوبہ بندی کے ذمہ داروںکو دینا چاہوں گا۔ منصوبہ سازوں کافرض ہے کہ وہ دفاتر سے میدان میں اتریں ۔ حقیقت حال کا بچشم خود معائنہ کریں اور حقیقت حال کے تناظر میں آئندہ نسلوں کیلئے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ایسی منصوبہ بندی کریں جس سے وطن عزیز کا فائدہ ہو۔ میری آرزو یہ بھی تھی اور ہے کہ منصوبہ ساز پیشوں پر توجہ دیں۔ وطن عزیز کے طول و عرض میں ٹیکنالوجی کالج اور انسٹیٹیوٹ کھولیں جہاں ثانوی میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہونے والوں کیلئے تعلیمی و تربیتی کورس ہوں۔ یہ کورس کرنے والے اپنی دکانیں کھولیں اور پیشے کی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھیں۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ تکنیکی اورتعلیمی پیشے کہ ذمہ دار حضرات کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ داخلے کیلئے ایسی شرائط مقرر کرتے ہیں جنہیں پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ طلباءو طالبات سے ایسا رزلٹ چاہتے ہیں جو انکے بس سے باہر ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ یہ ذمہ دار لوگ اپنے یہاں داخلے کے خواہش طلباءو طالبات سے زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگ پیشے کی دنیا سے دور کسی اوردنیا میں چلے جاﺅ ۔بہتر ہوگا کہ ملازمت کے چکر میں جوتے چٹخاتے پھرو۔ وطن عزیز کو غیر ملکی کارکنان کے حوالے کردو تاکہ وہ یہاں محنت مشقت کرکے ہموطنوں کے حساب پر اپنا مستقبل بنائیں سنواریں۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ حب الوطنی بورڈ پر چاک سے لکھے جانے والے جملوں کا نام نہیں۔ حب الوطنی اخلاص، سنجیدہ محنت اور راستی کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس کااظہار انسان کی آنکھوں سے ہوتا ہے اور حقیقی محبت ہر دکھ درد کو بھلا دیتی ہے اور ہمہ وقت وطن عزیز کیلئے کیا بہتر ہے اور کیا غلط ہے کی یاد دلاتی رہتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: