Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈیجیٹل بریانی

وسعت اللہ خان ٭٭٭***
سوچا ہی نہ تھا کہ پچھلے 30برس میں زندگی کتنی آسان ہو جائے گی۔میری نسل آخری پری ڈیجیٹل ایج نسل ہے۔مجھے یقین ہے کہ2040-50ء کے کسی ایک دن آپ کی کلائی پر بندھی گھڑی کے سائز کی ایک ہزار ٹیرا بائٹ طاقت والی کمپیوٹر اسکرین پر یہ خبر ضرور چمکے گی کہ آج پری ڈیجیٹل دور کے آخری انسان جان سنو کابفیلو میں انتقال ہوگیا۔عین ممکن ہے کوئی عجائب گھر جان سنو کے جسد کو حنوط کر کے کانچ  کے شو کیس میں رکھ دے ۔بالکل ویسے ہی جیسے قاہرہ کے عجائب گھر میں 9 فراعینِ مصر کی لاشیں مصالحہ لگا کر رکھی گئی ہیں ۔بالکل ایسے جیسے کوہ الپس کی اونچائیوں میں برف تلے دبے پتھر کے زمانے کے انسان کی محفوظ لاش کو محفوظ کر لیا گیا ہے تاکہ آج کی نسل اپنے پرکھوں کے بارے میں مزید جان سکے۔
زندگی بدلتی ہے تو اقدار بھی بدل جاتی ہیں ۔جیسے میری نسل ڈیجیٹل دور کی جزوی اور میرے بچے کلی تبدیلی کے دور میں جی رہے ہیں۔مثلا جب پری ڈیجیٹل ایج میں اگر کوئی رشتے دار مر جاتا تو ہمیں چل کے جانا پڑتا ۔انتظامات میں ہاتھ بٹانا پڑتا تھا۔رونے والوں کو اور پھر میت کو کاندھا پیش کرنا پڑتا ۔ اب کتنا آسان ہوگیا ہے ۔فیس بک یا ایس ایم ایس یا واٹس ایپ کے ذریعے کسی کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو ہم رئیل ٹائم میں اناللہ ٹائپ کر کے ورثا کے غم میں برابر کے شریک ہو جاتے ہیںمگر اناللہ تو ہم جیسے بڈھے توتے لکھتے ہیں ۔آج کل ریسٹ ان پیس زیادہ ٹرینڈی اور آر آئی پی تو بہت ہی کول اور ڈینڈی ہے۔
ہم پری ڈیجیٹل ایج والوں کو سالگرہ میں چل کے جانا پڑتا تھا اور وہ بھی تحفہ لے کر۔عید پر کارڈ خرید کے پوسٹ کرنا پڑتا تھا اور یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔عید سے پہلے سجنے والے بیسیوں اسٹالز پر جا کے کارڈ پسند کر کے انہیں لفافے میں ڈال کر گیلے لبوں سے گوند سے آلودہ لفافے بند کر کے سپردِ ڈاک کرنا پڑتا۔یہ رسم بھی تھی اور سماجی مجبوری بھی۔اب کتنا آسان ہے ۔سالگرہ کا ڈیجیٹل کیک، کھلونے اور ہیپی برتھ ڈے کا جنگل سب کچھ ایک کلک میں یہاں سے وہاں۔نہ بھیجنے والے کو کوئی خلش نہ وصول کرنے والے کے دل میں میل۔پری ڈیجیٹل ایج میں کوئی کالم یا مضمون یا تبصرہ پڑھ کے ہم جیسے کھوسٹ اسے پسند یا مسترد کرتے تھے۔پڑھنے اور پھر اسے سمجھنے اور پھر لطف اندوز یا جز بز ہونے میں کچھ وقت لگتا تھامگر ڈیجیٹل ایج میں ہر آدمی کی رفتارِ پڑھت روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز ہے۔ادھر میرا کالم فیس بک پر لگا نہیں اور صرف 3سیکنڈ بعد پہلا لائیک آیا نہیں۔میں حیران ہو جاتا ہوں کہ لائیک کرنے والا کتنا لائق ہے کہ 3سیکنڈ میں پڑھا سمجھا اور  رائے بھی دے دی۔میری نسل کے لوگ دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیں کہ کیا ہم ایسا کر سکتے تھے ؟ پھر بھی ہم ڈیجیٹل نسل کو کوسنے سے باز نہیں آتے کہ کم بخت پڑھتے نہیں ۔
پری ڈیجیٹل ایج میں سے ہر ایک کے محض چار پانچ ہی قریبی دوست اور دس بارہ جاننے والے ہوا کرتے تھے۔کوئی 50 اجنبی ایسے بھی تھے جو ہمارے اور ہم ان کے چہرہ شناس ہوتے تھے۔راہ چلتے یا بس میں مل گئے تو مسکرا کے دیکھ لیا۔اب اتنا کشٹ اٹھانے ضرورت ہی نہیں۔ بس کسی بھی سوشل سائٹ پر ایک اکائونٹ بنانا ہے ۔دو چار مہینے میں 4لاکھ دوست بن جائیں گیجو ڈیجیٹلی وفادار ہوں گے ، ڈیجیٹلی محبت کریں گے اور ان میں سے ہزاروں تو وقت پڑنے پر آپ کے ساتھ کھڑے ہونے حتی کہ جان نچھاور کرنے کا بھی وچن دیں گے لیکن جب سے پرویز مشرف کے ساتھ ڈیجیٹل دوستوں نے ہاتھ کیا ہے اس کے بعد کم ازکم ہم جیسے تو خاصے محتاط ہو گئے ہیں۔غالب ہم سے بھی زیادہ سیانا نکلا۔اس نے پونے 2 سو برس پہلے ہی سوشل میڈیا کی دوستیوں پے 3حرف بھیج دئیے تھے۔
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ 
جب آنکھ کھل گئی  نہ زیاں تھا نہ سود تھا
پری ڈیجیٹل ایج میں ہمیں بھیس یا بہروپ بدلنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے تھے۔اب کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔نذیر صاحب جب بیمار پڑے اور انہوں نے فیس بک پر لکھا کہ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں تو پورے 24گھنٹے میں صرف 3لوگوں نے لکھا  ارے کیا ہوا ؟ اپنا خیال رکھئے ، گیٹ ویل سون وغیرہ ۔نذیر صاحب کا دل ٹوٹ گیا ۔انہوں نے اسی وقت نیلوفر زیرو زیرو سیون کے نام سے ایک ٹویٹ اور ایک فیس بک اکائونٹ بنایا اور اس پر لکھا آج میری طبیعت ٹھیک نہیں۔صرف 3گھنٹے میں 272 لائکس ، 109 عیادتی ون لائنرز اور 521 ٹویٹس آئے اور وہ بھی ہیش ٹیگ نیلوفر از ناٹ ویل کے ساتھ۔کون کہتا ہے ہمارے معاشرے میں عورت کی قدر نہیں ؟ اب نذیر صاحب کو جب بھی بیمار ہونا ہو نیلوفر کے نام سے ہی ہوتے ہیں۔پری ڈیجیٹل ایج میں ہمیں فزیکلی منہ در منہ لڑائی کرنا پڑتی تھی۔ہاتھوں سے طرح طرح کے ناقابلِ بیان اشارے کرتے ہوئے گالیاں دینا پڑتی تھی اور اس کے نتیجے میں مار کٹائی اور زخما زخمی ہونے اور تھانے کچہری کی بھی نوبت آ جاتی تھی۔آج کتنی سہولت ہے آپ کسی بھی فرضی نام مثلا راکٹ 420 رکھ کے بغیر سامنے آئے جس کو جو گالی دینا چاہیں ڈیجیٹلی دے سکتے ہیں۔
دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجر پے کوئی داغ 
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو 
بس اب کچھ ایسا ہوجائے کہ بھوک لگے تو آدمی ڈیجیٹل بریانی و برگر کھا کے نچنت ہو جائے اور پیاس لگے تو گوگل سے ڈرنک ڈان لوڈ کر لے۔جیسے آپ کتابیں ڈان لوڈ کر لیتے ہیں۔بس کچھ دن کی بات ہے جب اتنا کچھ ہو گیا ہے تو یہ بھی ہو جائیگا۔
 

شیئر: