Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زمانے میں انسان کی بہترین ہم نشیں، کتاب

 عبداللہ بن مسعود۔کراچی
    
عربی زبان کے نامور شاعر متنبی کے ایک شعر کا مصرع ہے ”وخیر جلیس فی الزمان کتاب“ کہ زمانے میں بہترین ہم نشیں کتاب ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اچھی کتاب اپنے قاری کے لئے ایسے دوست کی حیثیت رکھتی ہے جو اس کو کبھی تنہائی کا احساس ہونے دیتی ہے نہ اکتاہٹ کو اس کے قریب پھٹکنے دیتی ہے۔یہ ایک ایسے ہمسفر کی مانند ہے جو اپنے ساتھی کو دوردراز کے علاقوں اور شہروں کی سیر کرادیتی ہے۔اسی سے انسان کو ایسی شخصیات سے مصاحبت کا شرف حاصل ہو تا ہے جن سے ملاقات کی خاطر طویل اسفار طے کئے جاتے ہوں یا جو را ہیِ ملک عدم ہو چکے ہوں، متعدد و متنوع افکار و نظریات سے واقفیت اس کے ذریعے حاصل ہو تی ہے۔
     کتابوں سے وابستگی کی نعمت کا کسی کو ادراک ہو جائے تو اس کے لئے بغیر مطالعے کے زندگی گزارنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یہی اس کے دن رات کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہیں۔ وہ اگر بیمار بھی ہوتا ہے تو کتاب ہی اس کا علاج ہوتی ہے۔ رنج و بے چینی کی حالت میں کتاب ہی اس کی غمخواری کا سامان فراہم کرتی ہے۔ مشکلات ومصائب میں بھی وہی تسلی کا باعث ہوتی ہے کیونکہ کتاب ہی تو اس کے شب وروز کی دمساز و ہمراز بن چکی تھی۔
    کتابوں سے حد درجہ عقیدت، ان کو جمع کرنے کا شوق، اپنے ذاتی کتب خانے کو وسیع سے وسیع تر کرنے کی جستجو اہلِ ذوق میں نمایاں رہی ہے، اور شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ اس سلسلے میں وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔چھٹی صدی کے ایک عالم امام ابن الخشاب کے بارے میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب500درہم میں خریدی۔ قیمت ادا کرنے کے لئے کوئی چیز نہ تھی، لہٰذا تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کیا۔ اس طرح اپنے شوق کی تکمیل کی (ذیل طبقات الحنابلة)۔
     ماضی قریب میں بھی ایسے متعدد اہلِ علم ودانش گزرے ہیں جن کا کتابوں سے والہانہ تعلق تھا، یہی ان کا اوڑھنا بچھوناتھیں اور اسی میں وہ اپنے دن رات بِتاتے تھے۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی کے ذوقِ مطالعہ کا اندازہ ان کے جادونگار قلم سے نکلی شاہکار تصنیف ”آپ بیتی“ وغیرہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ شروع ہی سے ہر کتاب کو پڑھ ڈالنے کے شوق میں گرفتار تھے۔ مذکورہ بالا کتاب میں ہی ایک سے زائد مواقع پر حضرت نے اپنی اس وارفتگی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ ایک مقام پر کتابوں سے محبت اور ان کے حصول پر مسرت کا اظہار کچھ اِس انداز سے کرتے ہیںکہ :
     ”پہلے تو یہ کتابیں مانگ مانگ کر پڑھیں، پھر جب لت پڑگئی اور نشہ اور تیز ہوگیا تو فیس ادا کرکے انجمن کا ممبر باضابطہ بن گیا اور بہت سی کتابیں اکٹھی کر لیں۔ میں اپنے اس ننھے منے کتب خانے کو دیکھ کر باغ باغ ہوجاتا“۔ انسا ئیکلوپیڈیا بریٹانیکا کا نیا ایڈیشن (گیارہواں) 35ضخیم جلدوں میں دریابادی کی حیات میں ہی چھپ کر لائبریری تو آگیا تھالیکن وقت محدود اور شوق لا محدود ہونے کی وجہ سے قرار نہ آیا آخر جب معلوم ہوا کہ ایک طالب علم نے اپنے ہاں یہ کتاب منگوالی ہے تو بے تاب ہوکر اس کے ہاں جاپہنچے اور اپنی اس کیفیت کو الفاظ کا جامہ پہنا کر یوں ظاہر کیا:
     ”شوق کے پیروں سے دوڑ کر نہیں، شوق کے پروں سے اُڑ کر ان کے ہاں ناخواندہ مہمان بن کر پہنچا....“ پھر جب ایک جلد لے کر موصوف اپنے گھر پہنچے تو لکھتے ہیں:
     ”بیٹھ کراور لیٹ کر کبھی میز پررکھ کر اور کبھی ہاتھ میں لے کر، ہر طرح اور ہر ڈھب سے پڑھنا شروع کردیا۔ کتاب کیا ملی، دولت ہفت اقلیم ہاتھ آگئی“ کتابوں سے ایک ایسی نسبت قائم ہوگئی تھی کہ انہیں کلیجے سے لگاتا“۔
    مسلمانوں میں کتب خانوں کی اہمیت اس حد تک تھی کہ کتابوں کا وجود رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کا سبب بن گیا تھا، لڑکیوں کے جہیز میں کتب خانے دیئے جاتے تھے گویا نکاح شرعی اور سماجی ضرورت کے ساتھ علمی ضرورت بھی بن گیا تھا چنانچہ امام اسحاق بن راہویہ نے سلیمان بن عبد اللہ زغندانی کی بیٹی سے شادی اس لئے کی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی کی جملہ تصانیف پر مشتمل کتب خانہ مل جانا تھا(انساب للسمعانی)
     آج علمی انحطاط کے اس دور میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے علم کی قدردانی اور کتابوں کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے چنانچہ اس زمانے کی نامور علم دوست شخصیت، ہمدرد دواخانہ کے سربراہ حکیم محمد سعید نے اپنی بیٹی کے جہیز میں ذاتی کتب خانہ دیا، معلوم ہوا کہ اہلِ علم کے ہاں کتابوں کو ایک عظیم مرتبہ حاصل تھا۔ لوگ خوشی ومسرت کے مواقع پر کتابوں کو بھی تحائف کے طور پر دیا کرتے تھے اور اچھی کتاب کا ہدیہ ایسا ہدیہ ہے جو انسان کے لئے محض مادی حیثیت کا ہی حامل نہیں بلکہ یہ اس کے فکری تنوع اور ترقیِ علم کے ساتھ دیگر باطنی فوائد کے حصول کا باعث بھی ہوتا ہے پھر کتاب آدمی کے لئے ایک دائمی یادگارہے۔ اس سے وہ تاحیات فائدہ حاصل کرسکتا ہے۔ وہ اگر کسی طرح ضائع بھی ہوجائے تو اس کے مطالعے سے حاصل شدہ فوائد، علمی نکات اور عملی ترغیبات سے ساری زندگی وہ مستفید ہو سکتا ہے بالفاظ دیگر کتاب کا نفع دیرپا ہے لہٰذا اگر اِس دور میں بھی تحائف کا تبادلہ مفید کتابوں کی شکل میں کیا جائے تو معاشرے میں علمی ذوق بھی پروان چڑھے گا اور لوگوں کی علمی، عملی اور فکری ترقی کا ذریعہ بھی ہوگا۔
    کتابوں سے شغف اور کتب خانے قائم کرنے کی جستجو اہلِ علم کا ہی امتیاز نہیں تھا بلکہ ہر فرد کی ہی یہ خواہش ہوتی تھی کہ اس کے پاس کتابوں کا ایک ذخیرہ ہو۔ اس کا گھر کتابوں سے آراستہ ہو، کتابوں کا وجود باعثِ تفاخر سمجھا جاتا تھا۔ کتبِ تاریخ کے مطالعے سے اس نتیجہ پر آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے کہ ہر طبقے میں ایسے اشخاص موجود تھے جو اپنی اپنی حیثیت کے مطابق اس شوق کے اسیر تھے۔

 

شیئر: