یہ این آر او نہیں تو اور کیا ہے؟
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جس کسی نے بھی ملک کا دیوالیہ نکالا ہے، ہم اُس کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ بلوکی میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے کپتان کا کہنا تھا کہ لٹیروں کو این آر او دینا ملک سے غداری کے مترادف ہوگا۔ اس سے پہلے دیے گئے 2 این آر اوز نے پاکستان کو مقروض کردیا جس کی قیمت عوام کو مہنگائی کی شکل میں چکانی پڑتی ہے۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ 10 برس میں ملک کو تباہ کرنے والے اب کہتے ہیں کہ 6 ماہ میں پی ٹی آئی کچھ نہیں کر سکی۔ حیرت ہے کہ وزیر اعظم کی یادداشت نے گزشتہ 10 برس تک ہی کام کیا، اس سے پیچھے جانے میں انہیں شاید دشواری محسوس ہوئی ورنہ سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف کو جس آسانی کے ساتھ باہر جانے دیا تھا، وہ این آر او نہیں تو اور کیا تھا؟ جمہوریت کی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ ایک آدمی جیل سے اُٹھ کر آئے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بن جائے اور پھر اُسی کو نیب طلب کرلے، کہیں بھی کسی جمہوریت میں ایسا کوئی تصور نہیں کرسکتا۔
وزیر اعظم کے بیان پر طے ہے کہ اپوزیشن بھی واویلا کرے گی اور ہوا بھی ایسا ہی کہ ایک جانب وزیر اعظم خطاب کررہے تھے تو سندھ میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری ٹنڈو آدم میں عوام سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اٹھارہویں ترمیم پر ڈاکہ پڑتا ہوا نظر آ رہا ہے لیکن ہم اپنے حق کی لڑائی جاری رکھیں گے۔ عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، ان (حکمرانوں) کی ٹانگیں ابھی سے ڈگمگا رہی ہیں۔ اس دوران آصف زرداری نے بحث کے لیے ایک نیا موضوع فراہم کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی نیا بنگلہ دیش نہیں بننے دیں گے۔ اسی دوران ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے وزیر اعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ڈکٹیٹر طرز کی حکومت ملک پر مسلط ہے اور حالیہ بیان سے عمران خان کی آمرانہ سوچ عیاں ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے این آر او کا شور مچا رہے ہیں لیکن اپوزیشن ان کی کارکردگی پر نہ این آر او دے گی اور نہ ہی ڈیل یا ڈھیل۔ اصل این آر او تو علیمہ خان کو دیا جا چکا ہے کیونکہ ان کی جائداد دراصل عمران خان کی جائداد ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین جاری ’نورا کشتی‘ بھی کوئی نئی بات نہیں، پاکستانی عوام اسے کئی دہائیوں سے دیکھتے آ رہے ہیں اور اب اس سیاسی کھیل کو خوب سمجھ چکے ہیں۔ جہاں تک بات این آر او کی ہے، تو وزیر اعظم عمران خان کی دی گئی مثالوں سے پتا چلتا ہے کہ این آر او کے ’نقصانات‘ کیا ہیں اور نتیجے کے طور پر اس میں شامل کرداروں کو ملنے والے ’فوائد ‘ کیا ہیں، تاہم موجودہ سیاسی حالات کو اگر بغور دیکھا جائے تو کیا واضح نہیں ہوتا کہ جس این آر او کی تردید خود وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے وزرا دے رہے ہیں، جسے وہ غداری کے مترادف سمجھتے ہیں، وہ مخالفین کو نہ صرف دیا جا چکا ہے بلکہ وہ اس سے فوائد بھی سمیٹ رہے ہیں؟۔ اسکرپٹ کے مطابق اس کھیل میں بڑی رکاوٹ میڈیا اور سوشل میڈیا جے جس پر کنٹرول کرنے کی کوششیں پورے زور و شور سے جاری ہیں تاکہ کسی قسم کا ردعمل یا مخالفت سر اٹھانے نہ پائے۔جس طرح سے تحریک انصاف کی حکومت نے ابتدائی 6 ماہ گزار لیے ہیں، ویسے ہی آئندہ وقت گزارنے کے لیے اسے وہی کھیل دہرانا ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا ہے اور بقول ایک صحافی کے، ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر ابھی تک کوئی بڑا الزام ثابت نہیں ہوا جبکہ جس معاملے میں انہیں سزا ہوئی ہے، اس کے خلاف نہ صرف اپیل کردی گئی ہے اور ساتھ ہی طبی بنیاد پر ضمانت حاصل کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ اگر یہ ضمانت مل جاتی ہے تو نواز شریف کے لیے ملک سے باہر جانا آسان ہوگا۔ کیا اس سے پہلے علاج ہی کے نام پر نواز شریف کے علاوہ آصف زرداری اور پرویز مشرف این آر او نہیں لے چکے؟
اگر سابق وزیر اعظم کے خلاف لگائے گئے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، اگر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب واقعی کرپشن کے کھلاڑی ہیں تو دونوں افراد کے خلاف ہونے والی کارروائی ویسی کیوں نہیں ہوتی جیسی ایک ملزم یا مجرم کے ساتھ ہونی چاہیے؟ اور جتنا کچھ بھی بطور ملزم ان افراد کے ساتھ حکومت یا نیب کا رویہ ہے، اس پر پارٹی قائد سمیت ن لیگ کی معنی خیز خاموشی اور محض بیانات پر اکتفا کرنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ملک کو لوٹ کر دیوالیہ کرنے والے سابق وزیر اعظم جیل میں وی آئی پی مہمان کی طرح رہتے ہیں۔ اسپتال میں بھی پورے پروٹوکول کے ساتھ قیام فرماتے ہیں، جیل میں ہر جمعرات کو پارٹی رہنما اور اہل خانہ باقاعدہ ملاقاتیں اور پھر جیل کے باہر میڈیا بیانات، دوسری جانب نیب کے ہاتھوں گرفتار اور جیل جانے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایسی کوئی سی آسائش ہے جو دستیاب نہیں؟ اپوزیشن لیڈر بھی شہباز شریف ہیں، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی بالآخر حکومت نے انہیں سونپی، منسٹرز کالونی کی رہائش گاہ میں سب جیل کے طور پر قیام، پروٹوکول، اجلاس کی صدارت، اپوزیشن کی ملاقاتیں اور بہت کچھ، اُدھر حکومت کے دوسرے بڑے مخالف سندھ میں نہ صرف حکمران ہیں بلکہ نیب اور ایف آئی اے میں مقدمات کے جاری ہونے کے باوجود آزادانہ اور پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں، اور حکومت کسی بڑے ردعمل کے خوف سے انہیں تاحال گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر سکی۔ حیرت ہے کہ ایک جانب ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو عدالت سے باہر ہی کھل کر لٹیرا، چور، ڈاکو اور مجرم قرار دے دیا گیا ہے اور ساتھ ہی انہیں وہ آزادی بھی نصیب ہے، جس پر رشک کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس ملک میں کسی عام یا معمولی ملزم کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس سے کون واقف نہیں؟
بظاہر گیم واضح ہے، جس طرح پرویز مشرف نے اپنے 2 بڑے مخالفین کو ملک سے باہر بھیج کر اپنا دور مکمل کیا، اسی طرح موجودہ حکمران بھی کوشش میں ہیں کہ الزامات ثابت ہوں یا نہ ہوں، ردعمل دکھانے والوں کو پردے سے ہٹانا ہوگا اور اس کا سب سے آسان راستہ ’قانونی‘ طریقے سے انہیں ملک سے باہر بھیجنا ہو سکتا ہے۔ جس طرح حکومت کی جانب سے این آر او نہ دینے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، اگر کپتان کے سابق دعووں کو پیش نظر رکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ ہمیشہ کی طرح شور مچانے کے بعد بالآخر یو ٹرن ہی لیا جائے گا، اور تیسری آنکھ سے ایسا نظر بھی آ رہا ہے۔ یہ این آر او نہیں تو اور کیا ہے؟۔