Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ارض الحرمین کے خلاف تشہیری مہم کی مزاحمت کریں، امام حرم

 مکہ مکرمہ۔۔۔ مسجد الحرام کے امام و خطیب شیخ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس نے کہا ہے کہ اسلام اور ارض الحرمین پر کیچڑ اچھالنے والے فتنہ انگیزوں کے خلاف تمام مسلمان صف بستہ ہوجائیں۔ ان دنوں عموماً اسلامی ممالک اور خصوصاً حرمین شریفین کی سرزمین کے خلاف ویب سائٹس اور سیٹلائٹ چینلز کے ذریعے زبردست تشہیری مہم چلائی جارہی ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس ابلاغی اندھے فتنے کے خلاف سب لوگ متحد ہوجائیں۔ اسلام کو زک پہنچانے یا حرمین شریفین میں بدامنی پھیلانے کے کوشاں عناصر کو اپنے مقاصد کے پورے کرنے سے روکیں ۔ امت مسلمہ کے ذہین نوجوان اس قسم کے فساد انگیز گھناﺅنے پر وپیگنڈے کے جال میں نہ پھنسیں۔ نفرت انگیز افواہوں پر کان نہ دھریں۔ ان سب کا مقصد معاشرے کو تہہ و بالا کرنا ، امت مسلمہ کے امن و استحکام کو برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ وہ ایمان افروز روحانی ماحول میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں وہ فتنوں کاد ور ہے۔ افکار و خیالات و شکوک و شبہات کا طوفان برپا کیا جارہا ہے۔ وسوسے پیدا کئے جارہے ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ اختلاف طبعی امر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں اختلاف کے حوالے سے بڑی موثر بات کہی ہے۔ ارشاد خداوندی کا مفہوم یہ ہے کہ اگر تمہارا رب چاہتا تو دنیا بھر کے لوگوں کو ایک امت بنا دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خاص حکمت کے تحت دنیا بھر کے انسانوں کو ایک جیسا نہیں بنایا۔ امام السدیس نے توجہ دلائی کہ امت مسلمہ کی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ بیشتر اختلافات فکری آسائش کے زمانے میں برپا ہوئے۔امت مسلمہ کی جب جب ناکہ بندی ہوئی تب تب فرزندان اسلام خارجی دشمن کے خلاف صف بستہ ہوگئے۔ امام حرم نے بتایا کہ شرعی دلائل 4قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو قرآن و سنت سے قطعی طور پر ثابت ہوں اور ان کا مفہوم بھی اسی درجے کا ہو۔ اس قسم کے مسائل کے احکام نے امت کے درمیان نہ اختلاف ہوا اور نہ ہی کبھی کسی نے ان میں اس قسم کے احکام میں فکر ونظر کی کوئی کوشش کی۔ دوسری قسم ان کی ہے جو قرآن و سنت سے قطعی طور پر ثابت ہوتے ہیں لیکن ان کے مفہوم میںظن و گمان کا عمل دخل ہوتا ہے۔ تیسرے وہ ہیں جوثبوت اور دلالت دونوں اعتبار سے ظن و گمان کے درجے میں ہوتے ہیں۔ چوتھے وہ ہیں جو ثبوت کے اعتبار سے ظن و گمان پر مشتمل ہوتے ہیں تاہم انکا مفہوم اور دلالت قطعی اور حتمی ہوتی ہے۔ امام حرم نے بتایا کہ آخر الذکر تینوں اجتہاد کا معتبر میدان ہیں۔مسلم مجتہدین نے ان میں اپنے ذہن اور فکر کے حوالے سے طبع آزمائی کی ہے۔ امام حرم نے بتایا کہ اسلام نے اختلاف کے ضوابط مقرر کئے ہیں۔ یہ ضوابط امت کو متحد کرتے ہیں منتشر نہیں۔ قریب کرتے ہیں دور نہیں۔ان میں بنیادی ضابطہ اصلاح نیت کا ہے۔ جو شخص امت کے اختلافات پر غور وخوض کرتے وقت نیت نیتی سے حق دریافت کرنے کا خواہاں اور کوشاں ہو اسکے پیش نظر غلطی کی اصلاح اور حق بیان کرنا ہو ، مخالف کی تشہیر یا اس کی تنقیص نہ ہو۔ اس کا مقصد شہرت اور علمی قد وقامت بڑھانا نہ ہو۔ وہ اسلامی نقطہ نظر سے صحیح مجتہد ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اسے اجتہاد کی دنیا میں قدم نہیں رکھنا چاہئے۔ ایسا کرکے وہ خود بھی محفوظ ہوگا اور امت بھی اس کے شر سے محفوظ رہیگی۔ اس حوالے سے دوسرا اہم ضابطہ یہ ہے کہ انسان کو جب اپنی غلطی کا علم ہوجائے اور صحیح رائے اسکے سامنے آجائے تو وہ حق کو قبول کرلے۔ اپنی غلط رائے پر قائم نہ رہے۔ تیسرا ضابطہ یہ ہے کہ اختلاف کو انسانی فطرت کا حصہ مان کر اختلاف کا اظہار کرے۔ چوتھا ضابطہ یہ ہے کہ حالات اور مقامات کے تقاضو ںکو مدنظر رکھے۔ پانچواں یہ ہے کہ مخالف کیساتھ انصاف سے کام لے۔ چھٹا یہ ہے کہ خود سے مختلف فکر اور رائے پیش کرنے والے پر نکیر نہ کریں۔ ساتواں یہ ہے کہ کسی کی نیت کو بنیاد بناکر کسی مسئلے کا حکم بیان نہ کرے۔
دوسری جانب مدینہ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے امام و خطیب شیخ عبدالباری الثبیتی نے جمعہ کا خطبہ مساجد کے فضائل کے موضوع پر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں کی زندگی میں مسجد بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ عصر اول کے مسلمانوں کو اس کا ادراک و احساس تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلا کام مسجد کی تعمیر کا ہی کیا تھا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی اسی طریقہ کار پر عمل پیرا رہے۔ مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے سے اسلامی معاشرے میں اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ غریب ، مالدار ، خادم اور مخدو م سب ایک دوسرے کیساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی ضرورتیں معلوم ہوتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے مل کر دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔

شیئر: