Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد باعث تقویت

احمد آزاد،فیصل آباد

سعودی عرب ایک بار پھر سے پاکستان کی مدد کو آپہنچا ہے ۔مشکل اقتصادی دور سے گزرنے والے پاکستان کو اس وقت سب سے قابل اعتماد بھائی اور دوست کا ساتھ پھر مل چکا ہے ۔2حکومتوں کے تعلقات سے بڑھ کر سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات عوام کے درمیان بھی اخوت و بھائی چارے والے ہیں ۔جب ہم اقتصادی بحران سے نمٹ رہے ہیں تو جہاں سعودی عرب نے پہلے ساتھ دیا اب وہیں پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایک تاریخ رقم کرنے پاکستان کے دورے پر ہیں ۔سعودی عرب اور ولی عہد دورہ پاکستان کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں کہ ان کے دورہ سے قبل ہی اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ اور سابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف پروٹوکول اور دیگر معاملات کو دیکھنے کے لیے پاکستان پہنچ چکے تھے ۔علاوہ ازیں دیگر معاملات کو دیکھنے کے لیے پورا لائولشکر بھی شہزادے سے قبل ہی اسلام آباد میں ڈیرے ڈال چکا تھا ۔جب تک آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے سعودی ولی عہد پاکستان کی فضائوں میں داخل ہوچکے ہوں گے۔اخباری ذرائع کے مطابق15ارب ڈالر سے زائد مفاہمتی یادداشتوں اور معاہدوں پر وزیراعظم پاکستان عمران خان اورسعودی ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے وزراء دستخط کریں گے ۔اس سے قبل بھی جب پاکستان کے معاشی حالات انتہائی سنگین ہوچکے تھے اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرانتہائی کم تھے توسعودی عرب نے6ارب ڈالر امداد فراہم کرکے پاکستانی معیشت کو سہارا دیا تھا ۔اسی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس جانے کا مزیدوقت مل سکا اور اس کی سخت شرائط کو پاکستان ایک طرف رکھ پایا۔آئی ایم ایف کے پاس اگرچہ اب بھی موجودہ حکومت جارہی ہے اور شرائط بھی طے ہوچکی ہوں گی لیکن یہ شرائط وقت بتائے گا کہ پچھلی شرائط سے قدرے مختلف ہوں گی جو ماضی کی طرح بالکل سخت نہیں بلکہ قدرے نرم ثابت ہوں گی ۔سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات نئے نہیں اور نہ سطحی نوعیت کے ہیں ۔اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ دنیا بھر کے ممالک میں سے کون پاکستان کاوفادار دوست اور بھائی ہے تو میں آنکھیں بند کرکے سعودی عرب کا نام لوں گا ۔اگر دنیا میں کوئی ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں کبھی سردمہری نہیں آئی تو وہ برادراسلامی ملک سعودی عرب ہے ۔حالانکہ دنیا میں 56کے قریب اسلامی ملک موجود ہیں لیکن چند ایک کو چھوڑ باقی کے ساتھ ہمارے تعلقات رسمی اور سطحی سے ہیں اور بعض اسلامی ملک تو ماضی میں بین الاقوامی فورموں پرپاکستان کے خلاف اقدامات میں دشمن ملکوں کی حمایت بھی کرچکے ہیں ۔سعودی عرب وہ واحد اسلامی ملک ہے جو ہمہ وقت ،قدم قدم اورشانہ بشانہ پاکستان کے ساتھ چلا ہے ۔مشکل سے مشکل وقت اور پُرخطر وکٹھن راستوں پر سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی طویل اور خوشگوار تاریخ ہے جو جغرافیائی حدود سے ماورا نظرآتی ہے۔نہایت اہم اورنازک ترین معاملات میں سعودی عرب نے پاکستان کے بھائی کا کردار بخوبی و احسن طریقے سے نبھایا ہے ۔قیام پاکستان سے قبل ہی پاک سعودی تعلقات کی ابتداء نیویارک کے ایک ہوٹل میں رکھی جاچکی تھی ۔پاکستان کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سعودی عرب کا نام بھی شامل ہے۔ 1951ء میں کیے جانے والے معاہدے پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔سعودی عرب کی کوششوں سے پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوسکا ۔یاد رہے کہ اس وقت پاکستان سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد والے دور سے گزر رہا تھا ، امریکہ جیسا اتحادی بھی پاکستان کو تنہا چھوڑ چکا تھا ایسے وقت میں سعودی عرب نے پاکستان کا ہاتھ تھاما اور کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کروایا۔سانحہ مشرقی پاکستان کے ایک عرصہ بعد تک سعودی عرب نے بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔ایٹمی دھماکوں کے بعد کی صورتحال میںجس طرح سے سعودی عرب نے پاکستان کا ساتھ عملی امداد کی صورت میں دیا تھا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔1965ء اور71ء کی جنگوں میں جس طرح سے سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی تھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا اسلامی ممالک میں سب سے مضبوط اتحادی سعودی عرب ہی ہے جو پاکستان کے ہر مسئلہ کو اپنا مسئلہ سمجھ کر اس کا درد محسوس کرتا ہے ۔پاکستان میں حکومتوں کے مختلف ادوار آئے لیکن سعودی عرب سے تعلقات میں کہیں بھی دوسرے ممالک کی طرح فُل اسٹاپ نہ آیا ۔پی پی کا دورحکومت ہو،مسلم لیگ ن کا حکومتی دورہو یاپھر موجودہ دورحکومت سعودی عرب ایک برادرانہ مسلم ملک کے طور پر اپنا آپ ثابت کرتا آیا ہے باالفاظ دیگر سعودی عرب نے ایک بڑے بھائی کا کردار نبھانے میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھی ۔عمران خان کے دورحکومت کے شروع میں ہی سعودی عرب نے پاکستانی معیشت کو سنبھالادے کر موجودہ حکومت کا اعتماد بحال کیا ۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جدید سعودی ریاست کی تصویر ہیں ۔انہوں نے جس طرح سے کرپشن کے خلاف اقدامات کیے ہیں وہ قابل تحسین و قابل تقلید ہیں۔محمد بن سلمان عالم اسلام کے حل کے لیے سنجیدہ و پروقار انداز اپنائے ہوئے ہیں ۔بالخصوص عالم عرب میں نوجوان نسل کے قائد کے طور پر ابھرے ہیں ۔مختصر وقت میں انہوں نے اپنی قابلیت کی دھاک پوری دنیا پر بٹھا دی ہے ۔سعودی ولی عہد کی اپنے وزراء کے ساتھ پاکستان میں موجودگی جہاں ہمارے دوستوں میں اضافے کا باعث ہوگی وہیں دشمنوں کو ایک مضبوط پیغام بھی جائے گا۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ جنرل راحیل شریف سعودی ولی عہد کے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستانی ہیں اور سابق آرمی چیف بھی ہیں۔ا بھی پچھلے ماہ ہی انہیں این او سی جاری کردیا گیا تاکہ وہ اسلامی فوج کی سربراہی جاری رکھ سکیں ۔راحیل شریف کی سعودی عرب میں موجودگی کا پاکستان کو فائدہ ہوگا اور ہمیں ان کو سعودی عرب میں اپنا سفیر اور پاکستان میں سعودی عرب کا سفیر سمجھنا ہوگا۔پاکستان کو اسلامی فوج کو مزید مستحکم کرنے اور اس میں براہ راست شامل ہونے کی راہ تلاش کرنی ہوگی ۔سعودی عرب سی پیک کا حصہ بننے جارہا ہے اورگوادر میں سرمایہ کاری سے سی پیک کا منصوبہ مزید مستحکم و مضبوط ہوگا ۔اس سے جہاں پاکستانی معیشت مضبوط ہوگی وہیں سعودی عرب اور چین کے درمیان شراکت داری کا آغاز ہوگا ۔اس سے عالمی سطح پر مثبت تبدیلیوں کی ابتداء ہوگی اور سعودی و چینی تعلقات کی قربت یقینی ہوپائے گی ۔یہ سرمایہ کاری ایک ایسے وقت میں ہورہی ہے جب پاکستان کو اس کی اشد ضرورت ہے ۔ہمیں قرضہ واپس کرنے کے لیے مزید قرضوں کا بوجھ اٹھانا پڑرہا ہے ۔ملک میں معاشی ڈپریشن اپنی انتہاء کو چھو رہا ہے ۔ایک دیہاڑی دار بندہ بھی ملکی معیشت کے بارے میں تذبذب کا شکار نظر آتا ہے ۔سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے جہاں سرمایہ کاری کاایک نیا باب کھلے گا وہیں ملکی معیشت کے حوالہ سے گردش کرتی افواہوں اور بے بنیادخبروں کا ازالہ ہوجائے گا۔بادی النظر میں موجودہ حکومت کی کوششیں رنگ لانے لگی ہیں اور امید واثق ہوچلی ہے کہ معیشت کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کو سماجی و معاشی ترقی میں اولیت حاصل رہے گی ۔

مزید پڑھیں:- - - -پاکستان جدیدیت کی راہ پر

شیئر: