Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

30ہزار ارب کا مقروض ملک اور ہماری عوام

خلیل احمد نینی تال والا
    بچپن میں ایک لطیفہ پڑھا تھا۔ ایک ظالم حکمران تھا۔ اس کو مرغیاں پالنے کا شوق تھا ۔یو ںسمجھیں اس ملک کی کمائی کا ایک ذریعۂ معاش مرغی کے انڈوں سے حاصل ہوتا تھا۔ دیگر ٹیکس کی وصولیابی میں کسا دبازاری اور مندی کا شکار بھی ہوچکی تھی۔ وزیروں نے مشورہ دیاکہ ہم نے عوام سے جتنا نچوڑ ناتھا نچوڑ کر سرکاری خرانے میں جمع کرادیاہے۔ اب آپکو جو کرنا ہے مرغیوں سے وصول کر لیں ۔وہ حکمران اپنی بندوق لیکر مرغیوں کے فارم میں گھس گیا اور حکم دیا کہ جو مرغی کل سے ایک کے بجائے 2 انڈے نہ دے اسے کاٹ ڈالا جائے ۔دوسرے دن تما م مرغیوں نے2د و انڈے دے رکھے تھے۔ صرف ایک مرغی کے نیچے سے صرف ایک انڈا نکلا تو اس نے اس مرغی کو کاٹنے کا حکم دیا تو مرغی نے کہا میری مجبوری تو سن لیں پھر بے شک اگر میں قصور وار ہوں تو مجھے کاٹ دیا جائے۔ بادشاہ نے وزیر کو رکنے کا حکم دیا اور مرغی سے مجبوری پوچھی تو اس نے کہا بادشاہ سلامت! آپ کے ڈراور خوف سے میں نے بہت زور لگایا تو صرف ایک ہی انڈہ دیا، ویسے میں مرغا ہوں۔ تو کم و بیش ایسی صورتحال جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے عوام ایسی ہی مصیبتوں سے گزر رہی ہے۔
     آج ہی ہمارے وزیر اعظم  کی زبانی معلوم ہو ا کہ پاکستان 30ہزار ارب کا مقروض ملک کا نام ہے جس کو ماضی کے جمہوریت پر یقین رکھنے والے حکمران اس ملک کو گروی رکھ کر عوام کو مقروض چھوڑ گئے ہیں۔ اب روزانہ کی مد میں6 ارب روپے صرف سود کی رقم ادا کی جارہی ہے اور چند دن قبل والے منی بجٹ کے بعد اب گیس کے دام بڑھانے نا گز یر ہو چکے تھے اور بقول ہمارے وزیر ریلوے شیخ رشید آئی ایم ایف کے پاس بھی ہم مجبوری کی وجہ سے قرضہ لینے گئے ہیں ۔ہم نے ریلوے کے محکمے کو بھی ماڈرن شکل دینی ہے اور کراچی سے پختونخوا تک ڈبل ریلوے پٹریاں بچھانی ہیں۔ عوام کو جتنی تبدیلوں کا وعدہ کیا تھا اس میں سب سے بُری بات آئی ایم ایف سے قرضے لینے والوں کے مطابق کہا گیا تھا۔ دھرنے کی صدائیں ایک ایک کر کے پھیکی پڑ چکی ہیں ۔ا مداد، قرضے، نقدی، پیٹرول، گیس ملنے کی اربوں ڈالر کی وصولیابی کے باوجود سارا بوجھ صرف عوام پر ڈالا جا رہا ہے اور سب ٹھیک ہورہا ہے اور ٹھیک ہوجائے گا کی صدائیں تبدیلی آرہی ہے اور تبدیلی آچکی ہے کے نعروں میں ڈھل رہی ہیں۔ کرپشن کرپشن اب ڈیل ڈھیل میں ابھرتی نظر آرہی ہے۔ مارکیٹ میں شریفوں، زرداری اور بحریہ ٹائون والوں سے اربوں کی ڈیل کا شوشہ چھوڑا ہوا ہے۔ قوم کو اسکولوں کی فیس، انکروچمنٹ ،ہائی رائز عمارتوں ،غیر قانونی شادی ہالوں میں الجھایا ہو ا ہے۔ کرپٹ حکمرانوں پر احتساب اور نیب کی کارروائیوں سے میڈیا کو پیچھے لگا کر سطانی گواہوں کی تلاش جاری ہے۔ بیوروکریٹس ٹکٹکی باند ھے سارا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ہر صبح 2 چار نئے نام شامل کرکے بازار گرما کر بے حسی بڑھائی جارہی ہے۔ سی پیک معاہدے میں دراڑیں ڈال کر شقیں بڑھانے کی بھی نوید دی جارہی ہے۔
     سی پیک کیلئے معاہدوں کی بھی وعید سے قوم میں زندگی کی نئی روح پھونکی جارہی ہے۔ اگر چہ یہ سب کچھ کیا دھرا ماضی کے حکمرانوں کا ہے۔ پھر لنگڑی لولی جے آئی ٹی اور تفتیش اندھے قانون کی طرف رواں دواں ہے۔ کیا کوئی کرپشن کی رسیدیں یا ثبوت چھوڑ کر جاتا ہے؟ جہاں بیوروکریٹس سیاستدانوں کا سانجھارہاہو؟ چین والوں سے جب انکی ترقی کا راز پوچھا گیاتو بتایا گیا کہ ہم نے صرف 300کرپٹ سیاسیدانوںاور بیوروکریٹس کو گولیوں سے اڑا دیا اور بس ہمارے ملک سے کرپشن ختم اور ترقی کی دروازے کھل گئے ۔ایک پل گرگیا تھا، ہم نے اس کے انجینیئر زاورٹھیکیداروں کو سزا ئے موت دے دی پھر کوئی بلڈنگ یا پل آج تک نہیں گرا۔
    بدقسمتی سے ہمارے قوانین بنانے والے وہی حکمران آج تک آتے اور جاتے رہے جو کرپشن میںPHDکر چکے ہیں۔ عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے والوں سے پوچھیں  یہ کھربوں پتی سیا سیدانوں اور حکمرانوں کے گوشوارے آپ کے پاس جمع ہیں ،خود کتنا ٹیکس ادا کیا ہے؟پہلے اربوں روپے سالانہ تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے کے بعد نئی 33قائمہ کمیٹیوں کے چیئر مینوں کو اضافہ تنخواہیں ،مراعات، نئی 1800 CCگاڑیاں، انکا 400لیٹر پیٹرول ،مفت ہوائی سفر ،مفت ڈرائیور  کی سہولتوں کی فراہمی ۔جبکہ  بجلی و گیس کے بڑھتے ہوئے بلوں  کیلئے صرف عوام ہی رہ گئے ہیں؟ وزیراعظم ہائوس خالی مگر اس کے ملازمین معہ رہائش وہیں مقیم ہیں۔ قصر صدارت سے کتنے ملازمین فارغ کئے گئے؟   کیا تبدیلی آئی ہے؟ وہ ہی پرانے حربے اور قصیدیں پڑھے جائیں گے ۔دکھ اور رنج سے میرا قلم بوجھل ہوتا جا رہا ہے ۔جو کام ماضی کے حکمران 5سال میں طے کرتے تھے پی ٹی آئی حکومت نے صرف آدھے سال میں مکمل کر لئے ہیں۔ ظاہر ہے 30 ہزارارب روپے کا خمار ہے، کیسے اترے گا۔
    دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ 30ہزار ارب روپے قرضے چڑھانے والے ابھی تک اس ملک میں بہ نفس نفیس موجود ہیں اور اپنی اپنی صفائیاں اور مظلومیت کی داستان سنا رہے ہیں اور مظلوم عوام کی ہمدریاں بھی سمیٹ رہے ہیں اور وہ کالم نگار بھی اس کی گواہیاں بھی دے رہے ہیں جن کے چولہے ٹھنڈے ہوتے جارہے ہیں ۔چلتے  چلتے قوم کو بتاتا چلوں کہ ہماری قومی ،صوبائی اور سینیٹ کے یہ غریب ممبران مفت رہائش کے علاوہ سرکاری کینٹینوں سے جو کھانا تناول فرماتے ہیں، ان کیلئے ذرا نرخ تو ملاحظہ ہوں:
    * چائے 1روپیہ، سوپ ساڑھے5روپے، دال ڈیڑھ روپے،گوشت21روپے،سینڈوچ6روپے، چکن ساڑھے24 روپے، دوسا4روپے، سبزی4روپے، مچھلی13روپے، بریانی 8روپے اور سموسہ2روپے میں ملتا ہے جبکہ غریب فنکاروں کیلئے آرٹس کونسل میں ہمارے ہر دلعزیز صدر احمد شاہ نے 12سال سے اقتدار سنبھا لاہوا ہے ،یہی سموسہ 15روپے روپے،چائے 30روپے   ،پیٹیز20روپے اور سینڈوچ25روپے کا ملتا ہے ۔اس کے باوجود نعرے ہیں کہ تبدیلی آرہی ہے جسے عوام حقیقی معنوں میں دیکھنے کیلئے ترس چکے ہیں ۔

مزید پڑھیں: - - - - -ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پاکستان آمد باعث تقویت

شیئر: