Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رشتے ہیرے سے بھی قیمتی ہیں،کھو جائیں تو قدر کا احساس ہوتاہے،فوزن عظیم

عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
عورت خاندان کا اہم رکن ہوتی ہے بلکہ یوں کہناچاہئے کہ اس کے بنا زندگی کے رنگ ادھورے ہوتے ہیں اور پھر گھر کی طرح معاشرے میں بھی عورت کا کردار بے حد اہم ہوتا ہے اور خاندان سے ہی معاشرے کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ معاشرے کو بھی حقیقی رنگوں سے بھرنے والی عورت ہی ہوتی ہے ۔ اس لئے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ عور ت پر کسی بھی حیثیت سے مختلف طرح کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں لیکن اللہ کریم کی عطا فرمائی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کے اہداف ہوتے ہیں جن پرتوجہ مرکوز کرکے جہد مسلسل کے ذریعے ایک کامیاب مثالی عورت بنتی ہے جو ہر میدان میں برسر پیکار ہوتی ہے۔ خواتین گھر کی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں یا پھر کسی بھی شعبے میں زندگی کے ہر میدان میں اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کامیابی سے خدمات انجام دیتی ہیں۔ آج کی عورت محض صنف نازک نہیں، وہ تسخیر کائنات کی جستجو میں فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں سے خلاکی وسعتوں تک جا پہنچی ہے۔ عورت نے ادب ، سیاست ، معیشت سمیت معاشرے کے ہر شعبے میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
رواں ہفتے ہوا کے دوش پر اردونیوز کی مہمان ایک ایسی باصلاحیت خاتون ہیں جوصرف گھریلو خاتون نہیں بلکہ استاذہ بھی ہیں۔ ان کا نام ‘’ فوزن عظیم بھٹی“ ہے۔ وہ ایک جانب گھر کے امور کو احسن ا نداز میں نبھا رہی ہیں جبکہ اسکول کے حوالے سے ذمہ داریا ںبھی بحسن و خوبی ادا کر رہی ہیں۔ 
محترمہ فوزن عظیم بھٹی کہتی ہیں کہ میں نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور گرلز اسکول سے حاصل کی اور ساتویں جماعت کی طالبہ کی حیثیت سے پاکستان ایمبیسی اسکول، ریاض میں داخلہ لیا اور یہیں سے انٹر میڈیٹ امتیازی حیثیت میں کیا پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگری اسلامک اسٹڈیز میں حاصل کی۔
میرے والد عاشق علی بھٹی 14سال تک ایمبیسی اسکول، ریاض کے سینیئر بوائز ونگ کے ہیڈ ماسٹر رہے ۔انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل اسکول، الجبیل میں 3سال تک پرنسپل کے فرائض انجام دیئے۔ میری پیدائش تربیلا میں ہوئی ۔ اس وقت بھی میرے والد تربیلاانٹرنیشنل اسکول کے ہیڈ تھے۔
میں نے1992ءمیں ٹیچر کی حیثیت سے پاکستان انٹرنیشنل اسکول ، ریاض جوائن کیا تھا اور الحمد للہ، میں تاحال اسی اسکول سے وابستہ ہوں۔1995ءمیں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئی۔ میرے شوہر ایک انٹرنیشنل کمپنی میں ملازمت کرتے ہیں۔ شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی انہوں نے بھی پاکستان ایمبیسی اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت اختیار کرلی۔
میں اپنے والدین کی سب سے پہلی اولاد ہوں اس لئے چہیتی بھی تھی لہٰذا میرے والدین مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ میں اپنے والدین سے اپنی ہر بات شیئر کرتی رہتی ہوں۔ میرے والد میرے لئے مثالی شخصیات ہیں اور انکی شخصیت کا میری ذات پر بڑا گہرا اثر ہے۔ میں نے اپنے والد کو بہترین منتظم کے طور پر پایا ۔وہ مشکل ترین لمحات میں بھی ہمیشہ بڑے ہی عقلمندانہ فیصلے کیا کرتے ہیں۔ 
محترمہ فوزن عظیم بھٹی کہتی ہیں کہ میری شادی پاکستان میں ہوئی اور پھر شادی کے فوراً بعدمیں ریاض آگئی تھی۔ سسرال میں زیادہ عرصہ نہ رہ سکی ۔صرف گرمیوں کی چھٹیوں میں جانا ہوتاہے۔ میرا سسرال ایک تعلیم یافتہ گھرانہ ہے جس کے زیادہ تر افراد افواج پاکستان میں کمیشنڈ افسر ہیں جہاں ہرطرف سلیوٹ ہے ، نظم و ضبط اور افسر شاہی ہے۔
میرے شوہر انوار الحق بھی پاکستان انٹرنیشنل اسکول، ریاض میں شعبہ معاشیات کے صدر ہیں۔ وہ پاکستان انٹرنیشنل اسکول ،ریاض کے چیف میڈیا کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ 
میں جونیئر گرلز ونگ، کے جی ونگ اور پھر مختلف اوقات میں اسکول کی ہیڈمسٹریس بھی رہ چکی ہوں۔ ابھی میں سینیئر گرلز، کالج ونگ کی ہیڈمسٹریس بھی ہوں اور تمام گرلز ونگ کی وائس پرنسپل ہوں۔
میرے تین بیٹے ہیں۔ زین العابدین 22سال کے ہیں جنہوں نے حال ہی میں پاکستان سے ڈینٹل سرجن کی ڈگری حاصل کی ہے اور ہاﺅس جاب کررہے ہیں۔ دوسرے بیٹے عبدالمتین 21سال کے ہیں اور وہ اس وقت یونیورسٹی آف انجینیئرنگ، ٹیکسلا میں مکینکل انجینیئرنگ کے فائنل سمسٹر میں ہیں۔ 
اسے بھی پڑھئے:گھر میں ”ننھا مہمان“ ہی والدین کی روٹین بناتا ہے ، عریبہ نعمان
میرے بچے بہت فرمانبردار ہیں۔ ہر کام والدین کے مشورے سے کرتے ہیں۔ الحمد للہ، میرے بڑے بیٹے زین العابدین کا رشتہ بھی ہم نے ایک ڈاکٹر لڑکی سے طے کردیا ہے۔ ڈاکٹر زین العابدین نے ہمیشہ اپنے میڈیکل کریئرمیں پوزیشن حاصل کی بلکہ اس نے سی اے میں بھی پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ الحمد للہ، میرے تمام بچے بہت اچھے مقرر اور مصنف ہیں۔ زین العابدین جب ریاض میں تھے تو مقامی انگریزی اخبار میں باقاعدگی سے رپورٹیں وغیرہ لکھا کرتے تھے اور عبدالمتین انجینیئرنگ یونیورسٹی کی تقریری سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری ہیں اور پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں سے مقابلے جیت چکے ہیں۔ میں نے اپنے تینوں بیٹوں کو خود پڑھایا ہے۔ میں روزانہ بچوں کو پڑھانے پر یقین رکھتی ہوں اور اللہ کریم کا فضل و کرم ہے کہ میرے تینوں بچے کامیاب ہیں۔ میں نے انہیں قرآن پاک بھی خود ہی پڑھایا ۔ہمارا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ جب ہم سفر پر جاتے تو روزانہ تمام بچے دعائیں اور سارے کلمے بلند آواز سے پڑھتے جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک جب بھی وہ گاڑی چلاتے ہیں، سب سے پہلے دعائیں پڑھتے ہیں۔
محترمہ فوزن عظیم بھٹی کہتی ہیں کہ میرے دو بھائی اور ایک چھوٹی بہن ہے بڑے بھائی آسٹریلیا میں ہیں اور ایک کامیاب بزنس مین ہیں جبکہ چھوٹے بھائی بین الاقوامی ہوٹل چین میں شروع سے ہی ملازمت کررہے ہیں اور آج کل وہ جدہ میں جنرل مینجر ہیں ۔ بہن بھی شادی شدہ ہیں اور انکے شوہر ایک کامیاب بزنس مین ہیں۔ بہن بھی اسکول کے نظام کوچلانے میں ہماری مدد کررہی ہیں۔ 
ہمارے اسکول کے ساتھ پاکستان ایمبیسی کا تعاون بلاشبہ کسی تعار ف کا محتاج نہیں۔ اس لئے ہمارے لنک آفیسر شیخ عبدالشکور ہمہ وقت اسکول کی بہتری کیلئے گامزن رہتے ہیں۔ اس وقت اسکول کا ڈسپلن اور تعلیمی نظام بہترین ہے ۔ اسکول میں آجکل ملٹی میڈیا بورڈز کا اجراءکیا جارہا ہے تاکہ ہمارے طلباءو طالبات موجودہ صدی کے تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کرسکیں اور پھر الحمد للہ، ہماری فیس بھی دیگراسکولوں سے کم ہے کیونکہ ہم خدمت کے جذبے پر عمل پیرا ہیں۔ ان شاءاللہ، جب تک شہر ریاض میں ایک بھی پاکستانی فیملی ہوگی ،یہ اسکول اپنا کام کرتا رہے گا۔ ہمارے اسکول کے نتائج بھی بہترین ہوتے ہیں۔ ہمارے ہزاوں طلباءو طالبات پوری دنیا میں ہر میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے طلباءہی امریکی نائب صدر کے ساتھ بھی کام کررہے ہیں۔
ہمارا ایک ہی نعرہ ہے کہ عمدہ تعلیم سب کیلئے۔ ہم تعلیم کے ساتھ اپنے طلباءو طالبات کی کردار سازی پر بھی توجہ دیتے ہیں اور الحمد للہ، میرے پاس بہترین اساتذہ کی ٹیم ہے جو اپنے فرائض انتہائی ایمانداری اور تندہی سے ادا کرتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر ہر شخص مثبت سوچ کے ساتھ اپنا کام انجام دے تو یقینا پاکستان ایک ناقابل تسخیر طاقت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔
ہماری گفتگو ابھی جاری تھی کہ محترمہ فوزن بھٹی کے شوہر انوار الحق تشریف لے آئے جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ نے اپنے شریک سفر کو کیسا پایا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میں اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتا ہوں کہ اللہ کریم نے مجھے اتنی سمجھدار اور سلجھی ہوئی شریک سفر سے نوازا ہے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش اس طرح کی ہے کہ شاید کوئی بھی ماں نہیں کرسکتی۔ بچوں کے ساتھ مصروف رہنا او رپھر اسکول کے فرائض بھی نبھانا ، 18گھنٹے وہ جاگتی رہتی تھیں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ نماز کا وقت ہورہا ہو اور کوئی بچہ باجماعت نماز پڑھنے نہ جائے۔ شام کے وقت باقاعدگی سے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتی تھیں پھر رات 12بجے تک پڑھائی جاری رکھتی تھیں۔ بچوں کو ہر مقابلے کیلئے خود تیاری کراتی تھیں۔ اس کیلئے سارا دن سوالات اور جوابات تیار کیا کرتی تھیں۔
امور خانہ داری میں بھی انکا کوئی ثانی نہیں۔ ان کی اکثر ڈشیں مثلاً بریانی اور حلیم توبے حد لذید بناتی ہیں،جن کا کوئی جواب ہی نہیں۔ کھانے والا اپنی انگلیاں ہی چاٹتا رہ جاتا ہے۔ امتحانات کے دنوں میں فوزن کی توجہ صرف بچوں پر ہی ہوتی تھی۔
میری شریک سفر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کافی مہمان نواز ہیں گو کہ میری شادی میری فیملی سے باہر ہوئی مگر میری بیگم کی محبت اور خلوص کی بدولت میری فیملی مجھ سے زیادہ ان کی گرویدہ ہوگئی ہے۔ میری شریک حیات نے میری والدہ کی بہت خدمت کی ۔ انکی ایک اور خوبی یہ ہے کہ جب وہ کوئی فیصلہ کرلیتی ہیں تو اپنے فیصلے میں لچک نہیں دکھاتیں۔ انکے اندر راجپوتوں والی دلیری اور بہادری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشکل ترین حالات میں بھی خوفزدہ نہیں ہوتیں بلکہ اپنے رب کریم پر بھروسہ کرتی ہیں اور بہادر انسانوں کی طرح مقابلہ کرتی ہیں۔ اسکول میں بھی لوگوں کی نہ صرف خوشیوں میں بلکہ غم میں بھی ضرور شریک ہوتی ہیں،فیصلے ہمیشہ میرٹ پر ہی کرتی ہیں۔
فوزن عظیم رشتوں کی بہت قدر کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ رشتے ہیرے او رموتی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ان کی قدر کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب یہ کھو جاتے ہیں۔ فوزن کو فلاحی کاموں میں بھی کافی دلچسپی ہے۔ جہاں تک ممکن ہوسکتا ہے لوگوں کی مدد بھی کرتی ہیں۔
محترمہ فوزن سے جب ادب پر گفتگو ہوئی تو انہوں نے جواب دیا کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں شعر و شاعری سے کافی شغف رہا اور اب بھی ہے لیکن اب وقت کی کمی کے باعث کتاب پڑھنے کا وقت نہیں ملتا۔ ویسے بھی جب موقع ملتا ہے تو کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ لیتی ہوں مجھے شاعروں میں فیض احمد فیض، علامہ اقبال، احمد فراز ، پروین شاکر پسند ہیں۔ گفتگو کے آخر میں محترمہ فوزن نے فیض احمد فیض کی یہ غزل پیش کی جو اردونیوز کے قارئین کی نذر ہے۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اسباب غم عشق بہم کرتے رہیں گے
 ویرانی دوراں پہ کرم کرتے رہیں گے
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی پہ ستم ہم کو گوارا
دم ہے تو مداوائے الم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
 

شیئر: