Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موچی کو جوتوں کا” ڈاکٹر “کہا جائے تو بہتر ہوگا

 ایسے ہی محنت کشوں سے تہذیب کا چہرہ نکھر تا ہے جو زندگی کے سفر کو اپنے انداز سے طے کرتے ہیں ان کی حو صلہ افزائی بہت ضروری ہے 
تسنیم امجد ۔ریا ض
دیس تو دیس پردیس میں بھی مو چی کی بہت اہمیت ہے ۔اس پیشے سے متعلق انسانوں میں قناعت کوٹ کو ٹ کر بھری ہوتی ہے ۔ا خلاق کی بھی کمی نہیں ہوتی ۔یہ کبھی تو کسی درخت کے نیچے اپنا صندوق رکھے اور کبھی تپتی دھوپ میں ایک کونے میں اپنے کام میں مصروف ارد گرد سے بے خبرجوتوں کو نئی زندگی دینے میں مگن نظر آ تے ہیں ۔چند برس قبل ہم نے کمیونٹی اسکول کے قریب کونے میں ایک بابا جی کوچھو ٹی سی چٹائی اور صندوق جسے چھوٹی سی تا لی لگی تھی ،کے ساتھ دیکھا ۔ان سے بات کرنے کا شوق صرف اس لئے ہوا کہ ان سے پو چھا جائے کہ وہ اس عمر میں وطن سے دور کام کیوں کر رہے ہیں ۔وہ بولے ان کا تعلق پشاور سے ہے ۔گھر کے حالات اچھے نہ تھے اس لئے دس برس قبل یہاں آ یا تھا۔ کمانے لگا تو گھر کے حالات بدلے ۔کھانے پینے کی تنگی ختم ہو گئی ۔ہم غریبوں کی اور تو کوئی خوا ہشیں نہیں ہوتیں پیٹ بھر کر کھانا مل جائے تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں ۔میں اسی میں خوش رہاکہ میری وجہ سے گھر کے حالات سنبھل گئے ۔سال پہ سال گزرتے گئے اور میں اسی طر ح کام کر تا چلا گیا ۔کیسے کہہ دیتا کہ اب واپس آ نا چا ہتا ہوں کیو نکہ کتنوں کا حو صلہ بن چکا تھا ۔گھر والی سگھڑ تھی اس نے جوڑجوڑ کے بیٹی اور بیٹے کی شادی کر دی۔دو نوں کی ایک ساتھ کی کیو نکہ میں بار بارنہیں جا سکتا تھا۔ان دس سا لوں میں صرف دو بار گیا ہوں۔بیچاری گھر والی بھی نمو نیہ ہونے سے ایک ہی دن میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔مرنے سے پہلے اچھی بھلی تھی مجھ سے بات کی اور بولی کہ فکر نہ کرو میں نے دو مر تبہ دیسی مر غی کی یخنی پی ہے ۔اسے بلڈ پریشر بھی تھا شاید وہ یخنی سے شو’ٹ کر گیا۔ڈاکٹروں کا یہی کہنا ہے ۔اب تو کوئی انتظار کرنے والا بھی نہیں رہا ۔ہماری بات چیت کے دوران ایک گا ہک کی جوتی بھی ٹھیک کر دی اس نے 3 روپے تھما دیئے تو اس نے چٹا ئی کے نیچے رکھ دیئے ۔وہاں اور بھی پیسے رکھے تھے ۔ہمارے سوال کے جواب میں بو لا کہ یہاں سے کوئی نہیں ا ٹھاتا ۔بلکہ اکثر میںجب بھی ادھر ادھر کسی کام سے جاتا ہوں توکہہ دیتا ہوں کہ اپنا جوتا ا ٹھا کر لے جائیں اور پیسے رکھ دیں ۔راہ چلتے لوگ بھی اس کے پاس کھڑے ہو کر جو تا چمکوانے لگتے بابا جی کی خود داری قا بلِ ستائش تھی ۔بچت اور معیارِ زندگی کی بہتری کی سوچ ان کے قریب بھی نہ تھی۔صبر و شکر سے ان کا دامن لبریز دیکھ کر ہمیں ان پر رشک آنے لگا ۔
جفت سازی دنیا کا سب سے پرانا پیشہ ہے ۔ٹیکنالوجی میں خواہ کیسی ہی تر قی ہو جائے۔اس کی اہمیت مسلم ہے۔مو چیوں کی اہمیت کو تر قی یافتہ ممالک میں بھی تسلیم کیا گیا ہے ۔امریکہ میں ایک اندازے کے مطابق ان کی 7 ہزار دکانیں ہیں اور یہ 300 ملین لوگوں کی خدمت کرتے ہیں ۔اس کا مطلب ہوا 600 ملین سے بھی زیادہ جوتوں کو مرمت کرتے ہیں۔اب تو یہ ہر قسم کے بیلٹ ،بکل،شو ہارنز ، پتاوے یعنی سول اور تسمیں بھی رکھتے ہیں،ان کا کام فل ٹائم ہے کسی دن کی چھٹی نہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ انہیں جو تو ں کا ڈا کٹر کہا جائے تو بجا ہو گا ۔تنگ یا کھلا جوتا ہو یا ہیل کو کاٹ کر آرام دہ بنانا ہو ،سب کا علاج ان کے پاس ہے ۔بنا بنایا جوتا تو کار خانے سے آتا ہے لیکن بعد میں ان کی مر مت کا کام جاری رہتا ہے ۔ان ممالک میں مر مت کے لئے ان کی مز دوری 12سے 35ڈالر تک ہوتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ان کی سا لانہ آ مدنی 16سے 19ہزار ڈالر سا لانہ ہے ۔اس طرح یہ معاشرے میں سر ا ٹھا کر جیتے ہیں ۔وہاں کا بلر ایمپلا ئیمنٹ لنکز cobbler employment links )) کے ذریعے کام کرنے کے موا قع فراہم کئے جاتے ہیں۔جیسے ” فیشن فٹ ویئر ایسو سی ایشن نیو یارک ،، اور پیڈور تھک (pedorthic ) فٹ ویئر ایسو سی ایشن و غیرہ ۔اس شعبے میں اعلی کار کردگی دکھانے والوں کو SSIA کے نام سے سلور کپ ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے ۔یہ انسٹی ٹیوٹ امریکہ میں ہے ۔
قارئین کرام ! ان مختصر معلومات کے بعد آپ ایشیائی ممالک کے مو چیوں اور تر قی یا فتہ ممالک کے مو چیوں کا مواز نہ آ سانی سے کر سکتے ہیں ٹیلنٹ کے با وجود یہاں یہ ا خراجات کے بو جھ تلے دبے سسکتے دکھتے ہیں ۔خودداری کی حفا ظت کرتے ہوئے کسی کے آ گے ہاتھ نہیں پھیلاتے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اس نوالے کا مزہ لیتے ہیں جو محنت سے کما کر کھا یا جاتا ہے ۔انہی لوگوں کے لئے ہی کہا گیا ہے :
ما تھے کے پسینے کی مہک آ ئے نہ جس سے
وہ خون میرے جسم میں گر دش نہیں کر تا
لہروں سے لڑا کرتا ہوں دریا میں اتر کے 
میں سا حل پہ کھڑے ہو کے سا زش نہیں کر تا
کاش ہمارے ہاں بھی ان کے لئے کوئی ورکشاپ یا انسٹی ٹیوٹ کا قیام ہو جا ئے ۔ان کے حالات بھی سنور جا ئیں اور یہ بھی ایوارڈ و صول کرتے نظر آ ئیں ۔وطنِ عزیز میں عوام بحرانوں کا مقا بلہ اس یقین کے ساتھ کر رہے ہیں کہ کبھی نہ کبھی اندھیرا ضرور چھٹے گا ۔انہوں نے امید کو یقین کے سا تھ اس طر ح منسلک کیا کہ زندگی کی مشکلات آ سان ہو تی چلی گئیں۔بقول شا عر :
رات کو مان لیا دل نے مقدر لیکن
رات کے ہاتھ پہ اب کوئی دیا چا ہتا ہے
ہمارے عوام وسائل کے غریب سہی لیکن عقل کے امیر ہیں۔رزقِ حلال ان کی کل متا عِ حیات ہے ۔سڑ کوں کے کنارے باربر اور ڈاکٹر بھی اپنا سامان رکھے ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں۔لاہور کے ایک بڑے شہر میں فٹ پاتھ پر کلینک سجائے ہمیں ایک دا نتوں کا ڈاکٹر نظر آ یا جو صرف 200روپے میں ہر قسم کی دا نتوں کی تکلیف کا علاج کرتا تھا ۔اسپتال میں غریب لوگ 2000روپے کہاں دے سکتے ہیں ۔ اس ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ وہ غیر قا نونی طور پر یہ کام کرتا ہے ۔پو چھنے پچھانے پر لے دے کر اور منت سما جت سے کام چلا لیتا ہوں۔ وطن میں خواندگی کی شر ح کم ہونے سے ایسے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔کاش ہم اپنے ہنر مندوں کی قدر کریں۔بظاہر ہم نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں خوب تر قی کر لی ہے لیکن اسے منفی سمت میں استعمال کرنا شروع کر دیا جس سے وقت کا ضیائع ہے ۔تر قی یافتہ ممالک کی طرح اپنے عوام کے ٹیلنٹ کی قدر کرنی چا ہئے ۔انہیں پھلنے پھولنے کے تمام مواقع فراہم کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے ۔خلیجی ممالک میں اب فٹ پا تھوں پر موچی کم نظر آ تے ہیں ۔جو توں کی دکانوں میں ہی یہ بیٹھے ہوتے ہیں ۔اکثر یہاں سستی چپلیں دستیاب ہوتی ہیں ۔لوگ نئی خرید کر پرانی مرمت کے لئے دے جاتے ہیں ۔ پرس ،بیگ اور اٹیچیوں کی ذپ بھی یہی مر مت کر دیتے ہیں ۔یہ ٹو ٹ پھوٹ تو روز مرہ کا حصہ رہتی ہے ۔ان کا وجود معاشرے کے لئے نعمت سے کم نہیں۔ہمیں یہ یاد رکھنا چا ہئے کہ محنت کشوں سے تہذیب کا چہرہ نکھرتا ہے جو زندگی کے سفر کو اپنے انداز سے طے کرتے ہیں ۔ان کی حو صلہ افزائی بہت ضروری ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: