Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی چینی زبان کیوں سیکھیں؟

فہد عریشی ۔ الوطن
تقریباً 3برس قبل برٹش ایجوکیشنل کونسل نے چینی زبان کی بات رائے عامہ کا ایک جائزہ تیار کیا تھا۔ طلباءو طالبات کے ایک ہزار سے زیادہ سرپرسوں کو جائزے میں شامل کیا گیا تھا۔ 51فیصد نے خیال ظاہر کیا تھا کہ چینی زبان بیحد اہم ہے۔ یہ مستقبل کی زبان ہے۔ اس سلسلے میں برٹش ایجوکیشن کونسل نے 2013ءمیں 3برس کے دوران 50ہزار اساتذہ کو چینی زبان سیکھنے کیلئے چین روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا تاکہ وہ 4لاکھ برطانوی طلباءکو چینی زبان سکھا سکیں۔
امریکہ نے جو چین کو اپنا حریف سمجھ رہا ہے اور خائف ہے کہ کہیں چین اسکے قدموں تلے سے بساط چھین کر دنیا کی پہلی طاقت نہ بن جائے۔ 2007ءمیں اپنے 33ہزار اسکولوں میں چینی زبان کا مضمون شامل کیا۔ امریکہ کی 30ریاستوں میں دسیوں ہزار طلباء چینی زبان سیکھ رہے ہیں۔ 
دنیا کے 2بڑے ملک اقتصادی، تجارتی سرمایہ کاری ، ترقی یافتہ ، صنعتی اور اسمارٹ ٹیکنالوجی کے شعبوں میں چین کے کمال او رہنرسے استفادہ کیلئے اسکی زبان سیکھنے ، سکھانے کا اہتمام کررہے ہیں۔یہ دونوں ملک اقتصادی ، سائنسی اور تحقیقی شعبوں میں عالمی مقام رکھتے ہیں۔سعودی عرب ان کے مقابلے میں چینی زبان میں مہارت کا زیادہ محتاج ہے۔سعودی عرب اپنی 40فیصد تیل پیداوار چین کو برآمد کررہا ہے۔ چین کے ساتھ سعودی عرب کا تجارتی لین دین 50ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ یہ اعدادوشمار 2017ءکے ہیں۔ 2018ءمیں تجارتی لین دین میں 18فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ چین سعودی عرب کاسب سے بڑا تجارتی شریک ہے۔ سعودی عرب کو مزید پیٹرو کیمیکل اشیاءاور گیس وغیرہ برآمد کرنے کیلئے چینی منڈی کی ضرورت ہے۔ پھر سعودی وژن 2030 مختلف شعبوں میں شاہراہ ریشم اور چین کے بیلٹ پروگرام سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اس پس منظر کا تقاضاہے کہ سعودی چینی زبان سیکھیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو چین کیساتھ سرمایہ کاری کے حوالے سے ہم کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ ہمیں چین کیساتھ شراکت کا پلڑا اپنے حق میں کرنے کیلئے چینی زبان ، اسکی ثقافت سیکھنی ہوگی۔ ہمیں گفت و شنید میں اہل چین کا طرز ، ان کے سوچنے کا انداز اور انکی بول چال کا مزاج سمجھنا ہوگا۔
دوسری بات یہ ہے کہ چین عظیم اقتصادی طاقت اوردنیا کی اہم موثر سیاسی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ اسکا بھی تقاضا ہے کہ ہم چینی رائے عامہ پر توجہ مرکوز کریں۔ چینی میڈیا سے تعلق بنائیں۔ سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے مسائل پر بحث مباحثوں میں چینی زبان جاننے والے سعودی شہری ہوں۔ ایسا ہوگاتب ہی مملکت کی سچی تصویر چینی رائے عامہ کے سامنے جاسکے گی۔ تعلقات عامہ کیلئے بھی چینی زبان سے واقفیت اور اس میں مہارت درکار ہے۔ میں نے 2016ءمیں ایک مضمون قلمبند کرکے اس امر کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی کہ انگریزی کے ساتھ ہمیں چینی زبان بھی سیکھنا ہوگی کہ اب وہ حال و مستقبل کی زبان بن چکی ہے۔ برطانیہ نے اپنے 50ہزار اساتذہ چینی زبان سیکھنے کیلئے چین بھیجنے کا فیصلہ ازراہ تفریح نہیں کیا تھا۔ نئے عالمی منظر نامے کو سمجھ کر ہی یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا جو خواب میں نے ڈھائی برس قبل دیکھا تھا اب وہ شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔ یہ دیکھ کر میں خوشی محسوس کررہا ہوں۔ 
ولی عہد کے دورہ چین کے موقع پر سعودی اسکولوں اور جامعات میں چینی زبان سکھانے کا فیصلہ بڑا اہم ہے۔ اسکی بدولت سعودی عرب اور چین کے درمیان اسٹراٹیجک شراکت گہری ہوگی اور دونوں ملکوں کے درمیان افہام و تفہیم کا تعمیری ماحول برپا ہوگا۔ نیلسن منڈیلا کا کہا سچ ہے کہ ”اگر آپ کسی سے ایسی زبان میں بات کریں جسے وہ سمجھتا ہو تو آپ کی بات اس کے ذہن کو اپیل کریگی اور اگر آپ اس سے اسکی مادری زبان میں بات کرو گے تو آپ کی بات اسکے دل میں گھر کر جائیگی“۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: