Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایسا کب تک ہوتا رہیگا

آخر کب غریب کی جان لینے کی روایت تاجر اور امیروں کے ہاتھوں میں رہیگی،یہی تاجر چند ٹکوں میں سب کو خرید کر منہ بند کردیتے ہیں اور نتیجہ وہی ہوتا ہے کہ کسی بھی حادثے کا نتیجہ برسوں تک نہیں آتا
زبیر پٹیل ۔ جدہ
شہر قائد کے علاقے صدر میں واقع ایک ریستوران سے مضر صحت کھانا کھانے کے بعد 5بچے اور بعدازاں انکی پھوپھی بھی جاں بحق ہوگئی۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے حسب روایت کارروائی کے طور پر نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔ جسے بعد ازاں ہر مرتبہ کی طرح کچرا دان کے حوالے کردیا جائیگا۔ریستوران سے مضر صحت کھانوں کا یہ مسئلہ صرف شہر قائد کانہیں بلکہ پورے ملک کاہے۔ ہوٹل مالکان چند ٹکوں کے منافع کی خاطر انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہیں۔ 
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے؟ کیا آج انسانی زندگی کی قیمت اتنی کم ہوچکی ہے کہ ہم اپنے فائدے اور چند ٹکوں کیلئے انسانی جان کے ضیاع کو بھی کچھ نہیں سمجھتے ۔اسی طرح ہمارے محترم بڑے لوگ ہر مرتبہ کی طرح وہی آفیشل جملہ اور وہی آفیشل کہ ”کارروائی کا نوٹس لے لیا ہے او ررپورٹ طلب کرلی ہے“۔ یہ وہ رٹا رٹایا جملہ ہے جو ہرحادثے پر بولاجاتا ہے۔کیا غریب اسی طرح سسک سسک کر مرنے کیلئے پیدا ہوا ہے؟ آخر کب غریب کی جان لینے کی روایت تاجر اور امیروں کے ہاتھوں میں رہے گی۔یہی تاجر چند ٹکوں میں پولیس اور بڑوں کو خرید کر انکا منہ بند کردیتے ہیں اور نتیجہ وہی ہوتا ہے کہ کسی بھی حادثے کا نتیجہ برسوں تک سامنے نہیں آتا۔ دور جانے کی ضرورت نہیں بے نظیر بھٹو کے حوالے سے آج تک کوئی حتمی رپورٹ سامنے نہیں آسکی کہ قاتل کون تھے جبکہ اس دوران پیپلز پارٹی کی حکومت بھی آئی مگر قتل کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ آخر ایسا کب تک ہوتا رہے گا؟
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں