Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشتگردی کی بیخ کنی کیلئے عسکری کارروائی کا فی ہوگی؟

ہادی الیامی۔ الوطن
    پوری دنیا شام اور عراق میں دہشتگرد تنظیم داعش کی عسکری شکست کے اعلان کا بے قراری سے انتظار کررہی ہے۔ مشرقی شام کے قریے الباغوز سے داعش کے اخراج پر اسے عسکری شکست دینے کا اعلان ہوگا۔ یہ شام میں داعش کا آخری اڈہ ہے۔ میرے نقطہ نظر سے اسکے بعد ہی زیادہ مشکل اور زیادہ اہم کارروائی کا آغاز ہوگا۔ داعش تنظیم کو فکری طور پر شکست دینا عسکری شکست سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ انتہاپسندانہ افکار و نظریات کی جڑیں کاٹنے کے بعد ہی دہشتگرد و انتہا پسند تنظیم کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ بین الاقوامی سول سوسائٹی اور اس کے متعلقہ ادارے بھاری غلطی کرنے جارہے ہیں۔ اس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا ہوگا۔ سمجھا یہ جارہاہے کہ داعش کی عسکری شکست کا اعلان شدت پسندی کی بیخ کنی کے مشن میں آخری کڑی ہے۔انتہا پسندی دراصل ایک سوچ کا نام ہے ۔یہ سوچ ہی آگے چل کر دہشتگردی کے عمل میں تبدیل ہوتی ہے لہذا انسانی تاریخ کے اس سیاہ باب کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا تاوقتیکہ سب لوگ شدت پسندی کے علمبرداروں پر ان کی سوچ کے غلط ہونے کو باور نہ کرادیں اور اس حوالے سے واضح حکمت عملی نہ اپنا لیں۔
    اس حکمت عملی کے نفاذ میں عوامی اور سرکاری دونوں حلقوں کو اپنا اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ اس میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کردار بہت بڑا ہوگا۔ خاندان ، اسکول ، یونیورسٹی، مسجد ،ذرائع ابلاغ اور فکر و آگہی فراہم کرنیوالے اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں انتہا پسندانہ افکار کے گھناؤنے پن کو نمایاں کرنا پڑیگا۔دہشتگرد پیدائشی دہشتگرد نہیں ہوتا ، بہت سارے حالات اسے دہشتگردی کے راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ ہمیں کسی بھی دہشتگرد کو سزا دینے سے قبل دیکھنا ہوگا کہ آخر کس قسم کی سوچ نے اسے دہشتگردانہ شاہراہ پر گامزن کیا۔ ایسا کئے بغیر ہم انتہاپسندانہ افکار رکھنے والوں کو راہ حق پر نہیں لاسکتے۔ہمیں اس امر کو یقینی بنانے کیلئے کہ آئندہ کوئی انتہا پسند نہ بنے اور دہشتگردی کو اپنی پہچان نہ بنائے، فکری اور نظریاتی اعتبار سے اصلاحی عمل انجام دینا ہوگا۔ اہل خانہ کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بچپن ہی سے اعتدال پسند بنائیں، انہیں مکالمے کا عادی بنائیں، انہیں نفرت سے بچانے کا اہتمام کریں۔ سعودی حکام نے ایک کام بڑا اچھا کیا ہے، وہ یہ کہ اپنے کورس میں انسانی حقوق کا مضمون شامل کردیا ہے۔ اس سے انسانی حقوق کا کلچر راسخ ہوگا۔
    مساجد کا کردار زیادہ اہم ہے۔ وجہ یہ ہے کہ فتنہ انگیز اور گمراہی کے علمبردار بعض مساجد کے منبر و محراب ہی پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ اکثر نوجوانوں میں موجود مذہبی جذبے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کو ان کے سیاق و سباق سے جدا کرکے الٹے سیدھے معانی بتانے کا چکر چلایا ہے۔ ہمارے خطیب اور ہمارے مبلغ نفرت انگیزوں کی دروغ بیانی کو طشت از بام کرسکتے ہیں ۔نوجوانوں کے ذہن سے کھیلنے والوں کی حقیقت اجاگر کرسکتے ہیں۔
    روایتی ذرائع ابلاع مثلاً اخبارات، ریڈیو اور سیٹلائٹ چینلز کا کردار بھی بیحد اہم ہے۔ ان دنوں سوشل میڈیا بھی بیحد موثر ہوگیا ہے۔ہمارے بیٹے اور بیٹیاں اس کے سحر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دہشتگرد حلقے ہمارے بچوں اور بچیوں کے ذہن و دماغ کو قابو کرنے کیلئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعما ل کررہے ہیں۔ اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔
    حاصل کلام یہ ہے کہ انتہا پسندانہ اور منحرف افکار سے نمٹنے کیلئے غیر روایتی وسائل اپنانے ہونگے ۔ ان دنوں براہ راست وعظ و نصیحت کے پروگرام بہت سارے نوجوانوں پر اثرانداز نہیں ہوتے۔ سعودی عرب نے ایک کام اور اچھا کیا، وہ یہ کہ انتہاپسندانہ افکار سے نمٹنے کیلئے مرکز اعتدال قائم کیا ہے۔ اس کے توسط سے دہشتگردوں کے دلائل کا جواب عصری انداز میں مدلل شکل میں دیا جارہا ہے۔سعودی عرب نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے بہت سارے اقدامات کئے ،ان میں سے انسداد دہشتگردی کے عالمی مرکز کا قیام بھی ہے جو اگست 2014ء میں نیویارک میں 100ملین ڈالر کے عطیے سے شروع کیا گیا۔ اب بھی سعودی عرب انسداد دہشتگردی کے حوالے سے ہر سطح پر مثبت اور موثر کردار ادا کررہا ہے۔
 

شیئر: