Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غربت کی بنیادی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم

 بدقسمتی سے کسی حکومت نے غربت کے خاتمے کیلئے کوئی حقیقی اسباب پر غور کرنا گوارہ کیا اور نہ پاکستان میں غریبوں کی خبر گیری کرنے کا کوئی رواج ہے
عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
احترام انسانیت وہ صفت اور خوبی ہے جس سے انسانیت کا دوام وابستہ ہے۔ شرف انسانی کا مطلب ہی احترام انسانیت ہے۔ یعنی ہر شخص بلا کسی تفریق، مذہب و ملت ، قوم و ملک یا پیشے سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ قابل احترام ہے کیونکہ وہ انسان ہے اور یہ کہ مذاہب عالم میں بھی احترام انسانیت کا درس دیا جاتا ہے کہ ہر انسان کا احترام لازم ہے اس کے علاوہ ہمارے پیارے نبی کریم کی زندگی کا سب سے بڑا مشن اور نصب العین بھی یہی تھا کہ دنیا میں انسانی اقدار کی حفاظت کی جائے کیونکہ ہر انسان خواہ وہ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو خواہ وہ سڑکوں کی جھاڑو لگانے کا کام کرتا ہو یا محنت مزدوری کرتا ہو وہ قابل احترام ہے۔ کسی بھی پیشے کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ کیونکہ وہ لوگ اپنا کام بہت محنت اور دیانتداری، خلوص سے کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے وطن عزیزمیں سابقہ حکمرانوں کے بعد کچھ ایسے لوگ ملک کے اقتدار کے منصب پر فائز ہوگئے جس سے وہ اپنی ناعاقبت اندیشی سے ملک میں جھاڑو پھیر گئے۔ جس سے عوام محتاج سے محتاج تر اور ضرورت مند سے ضرورت مند ہوتی چلی گئی۔ کرپشن کو ام الخبائث کہا جاسکتا ہے اور بے بہا برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں جو معاشرے کو دیمک کی طرح اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوموں کی تباہی میں مرکزی کردار ہمیشہ کرپشن کا ہی ہوتا رہا ہے۔ یہ کسی بھی صورت میں ہو جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہوگی وہ قوم اتنی ہی جلد بربادی کے گڑھے میں جاگرتی ہے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اگر کسی قوم کے رگ و پے میں کرپشن سرایت کر جائے تو اس کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ یعنی کہ وہ قوم اپنی شناخت و مسافت اور مقام و مرتبے سے یوں ہاتھ دھوبیٹھتی ہے جیسے کوئی بلند مقام اس قوم کوملا ہی نہ تھا۔ یہ جس قوم کو لگ جائے اس قوم کی تباہی یقینی سمجھئے ۔یہ ایک بار کسی صحت مند و توانا معاشرے پر اگر ٹپکے تو ایک ادارے سے دوسرے ادارے کو جلاتی چلی جاتی ہے حتی کہ ہر چیز کو ڈس کر بے جان کر ڈالتی ہے۔ پھر کچھ ہی عرصے میں آباد اور کامیاب ادارے میں الو بولنا شروع کردیتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر فرماتے ہیں کہ:
برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
کرپشن اور بدعنوانی وطن عزیز میں گزشتہ چند دہائیوں سے بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے جسکی وجہ سے آج غریب بیچارا روٹی کو ترس رہا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں غربت کی بنیادی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جس کے سبب امیر ، امیر ترین اور غریب غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے غربت کے خاتمے کیلئے کوئی حقیقی اسباب پر غور کرنا گوارہ نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان میں غریبوں کی خبر گیری کرنے کا کوئی سرے سے رواج پایا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خوراک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں تقریباً4سے 5کروڑ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں مگر پھر بھی ہمارے ہاں کسی کو غریبوں کے دکھ درد سے کوئی سروکار نہیں۔ انہیں تو صرف اور صرف مال و متاع جمع کرنے سے غرض ہے بلکہ صاحبان اختیار نے غربت کے خاتمے کیلئے بہتر پالیسیاں یا اقدامات کرنے کے بجائے صرف زبانی جمع خرچ پر ہی زیادہ اکتفا کرتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو غریب عوام کی حالت زار کی کوئی پروا نہیں بلکہ الٹا ایسی پالیسیاں تشکیل دی ہیں۔جس کے نتیجے میں ملک میں غریبوں کی تعدا دمیں اضافہ ہی ہورہا ہے بلکہ ہمیں یوں کہناچاہئے کہ غربت کے خاتمے کے بجائے غریبوں کا خاتمہ ہورہا ہے۔ ہمارے وطن عزیز میں غریبوں کے لئے بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں ۔ اوپر سے مہنگائی کا جن غریبوں کے سروں پر مسلط ہے جس سے جان چھڑائے نہیں چھوٹتی کبھی آٹا اور کبھی چینی کے بحران نے غریبوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کبھی بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ اور پھر بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ غریبو ںپر بجلی بن کر گرتی ہے اور پھر کبھی پیٹرول اورڈیزل کی قیمتیں ان کے خوابو ںمیں آکر انہیں ڈراتی رہتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کبھی انتہا پسندی اور دہشتگردی کے واقعات بھی خوف و ہراس کا باعث بنتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک غریب آدمی ہی متاثر ہوتا ہے جسکی وجہ سے ملک میں ہر طرف بے روزگاری ہے۔ اسلئے ملک میں لوگ بے روزگاری اور مہنگائی سے عاجز آچکے ہیں۔ بقول شاعر:
تو تو سورج ہے تجھے کیا معلوم رات کا دکھ
تو کبھی میرے گھر میں اتر شام کے بعد
ہمیں معلوم ہے کہ کرپشن سے معاشرے میں عدم تحفظ ، ناامیدی اور مایوسی پیدا ہوتی ہے اور کسی بھی ملک میں مسائل کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ حکمراں طبقہ کے غیر ذمہ دارانہ رویہ ، غفلت اور نااہلی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ برسراقتدار طبقہ دیانتدار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے کے دیگر طبقات میں بدعنوانی کا عنصر پروان چڑھ سکے۔ اس کے مقابلے میں حکمراں بددیانت اور اگر عوام بدعنوانی کیلئے نرم گوشہ رکھتے بھی ہوں تو پھر معاشرہ تباہی کی طرف آکھڑا ہوتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہمارا معاشرہ اقربا پروری ، بے ایمانی اور بددیانتی کے شکنجے میں بری طرح جکڑ چکا ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے حکمران ہوں یا صاحبان اقتدار سبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے ہر لمحہ تیار بیٹھے رہتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے جارہے ہیں۔ یعنی ان سب نے مل کر ملک میں جھاڑو پھیر دیا ہے اب کچھ نہیں بچا ہے اسلئے غریب بیچارے معمولی معمولی خوشیوں کیلئے بھی ترس رہے ہیں اور تڑپ رہے ہیں مگر کوئی ان کا پرسان حال نہیں۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی ہے جس میں خاتون سڑک پر جھاڑو لگا رہی ہے یوں تو دیکھا جائے تو جھاڑو پھیرنا یا جھاڑو لگانا یہ سب ہماری شائستہ زبان اردو کے محاورے ہیں لیکن اگر ہم غورکریں کہ جھاڑو نام کی کوئی ایجاد ہی نہ ہوتی تو ہم تو گندگی کے ڈھیر میں ڈوبے ہوتے یا پھر جھاڑو دینے والے لوگ یعنی صفائی ستھرائی کیلئے کوئی موجود ہی نہ ہوتا تو شہر تو گندگی کا ڈھیر ہوتا ایسی صورتحال میں انسان کا تو جینا ہی محال ہوجاتا۔ اسلئے ہر کام کرنے والے کی اپنی جگہ اہمیت ہوتی ہے کوئی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا خواہ صفائی ستھرائی کا کام ہو یا پھر دفتر میں بیٹھ کر کمپیوٹر کے سامنے کام کرنا ہو یا کوئی دفتر کا چپراسی ہو یا کوئی ادنی سے ادنی کام کرنے والا ہی کیوں نہ ہو سارے افراد کی اہمیت اپنی جگہ ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر شخص اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو سب عزت و تکریم کے لائق ہوتے ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم انکا احترام کریں کسی کو ہمیں کمتر نہیں سمجھنا چاہئے۔ بلکہ ہمیں انکی عزت کرنا چاہئے آج اگر ایک روز صفائی ستھرائی کرنے والے گھر میں نہ آئیں تو گھروں کا کیا حشر ہو۔ اسی طرح ایک اگر شہر کی صفائی ستھرائی نہ کی جائے تو شہر کی ساری رونقیں کھو جاتی ہیں اور شہر بالکل ایک ویران کھنڈر کا نقشہ پیش کرنے لگتا ہے۔ یہ درست ہے کہ جھاڑو پھیرنا اور جھاڑو لگانا دو مختلف محاورے ہیںجھاڑو پھیرنا گو کہ ایک ادبی محاورہ ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کو تمام برائیوں سے پاک کرنا ہوتا ہے اور جھاڑو لگانا یعنی صفائی ستھرائی کرنا ۔
اکثر اوقات جتنا اہم کام جھاڑو لگانا ہے اسی قدر اہم جھاڑو پھیرنا بھی بن جاتا ہے کیونکہ معاشرے کی گندگی اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ ہم لوگ اس سے غافل ہوچکے ہیں جبکہ اسلامی زندگی میں صفائی ستھرائی کو اہم مقام حاصل ہے اور یہی ہمارے مذہب اسلام نے بھی انسانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کی پوری زندگی پاک و صاف رہنا چاہئے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ صورتحال اب تو یہ ہوگئی ہے کہ ان کی شناخت صفائی کے علمبردار ہونے کے بجائے نجاست اور گندگی کے ڈھیروں میں رہنے والوں سے ہورہی ہے اسکی مثالیں مکانات، محلوں، راستوں ، گلیوں، علاقوں کے تعفن زدہ ماحول میں دکھائی دیتے ہیں نہ صرف معاشرے میں صفائی ستھرائی کرنا بلکہ معاشرے کی ہر طرح کی برائیوں سے پاک بھی کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکا ہے۔ امانت ، دیانت، صدق، عدل ، ایفائے عہد ، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار اب کمزورپڑتی جارہی ہیں اور پھر کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح پھیلتی جارہی ہے۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے اور لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اپنی ہی ذات کے اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ اسی لئے حکومت کو چاہئے کہ وقت بے وقت معاشرے میں برائی کے خلاف اقدامات کرے اگر حکومت ایسا نہیں کریگی تو کیا ہوگا کہ یہ سارے معاشرے میں برائی اور گندگی پھیلانے والے لوگ ہمارے سروں پر مسلط ہوجائیں گے جیسا کہ حبیب جالب نے کہا کہ :
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
حکمراں بن گئے کمینے لوگ
اگر معاشرے میں برائی کے خلاف اقدامات نہیں کئے جائیں گے اور مجرموں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا نہ دی جائیگی تو پھر ملک میں برائیوں کا اضافہ ہوتا جائیگا اور برائی کرنے والوں کو کوئی خوف کوئی ڈر نہ ہوگا۔ وہ ایک مافیا کی صورت اختیار کرکے ہمارے حاکم بن بیٹھیں گے اور حبیب جالب کا شعر پورا اترتا دکھائی دے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭ 
 
 

شیئر: