Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معاشرے میں سادگی کم اور بناوٹ کا عنصر زیادہ ہوگیا، رضیہ بیگم

تعلیمی اداروں کو اپنے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے، فیشن شو قسم کی چیزوں سے دور رہنا ضروری ہے، ایسے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جانا چاہیے جو ہنر مندی میں اضافہ کرے، جدید تعلیم کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو
زینت شکیل
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان کو یہی فکر ہر وقت کرنی چاہیے کہ وہ اس اونچے درجے پر ہی فائز رہے وہ لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جوعلم کی شمع ہاتھ میں لیکر اپنی قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔ مستقل مزاجی اور جرات مندی سے حالات کا مقابلہ کرنے والے کبھی زیر نہیں کیے جاتے۔ ان کی بلند حوصلگی اور قومی و دینی غیرت ہر حال میں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اسی موضوع پر ہماری گفتگو اس ہفتہ ”ہوا کے دوش پر“ جناب محمد خان میمن اور انکی اہلیہ رضیہ خاتون سے ہوئی۔ ہائی اسکول کے استاد جناب محمد عمر اور انکی شریک حیات صفیہ بیگم کے گھر ایک بچی نے 1943ءان حالات میں انکا آنگن خوشیوں سے روشن کر دیا جب ہر طرف اندھیرے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔
 محترمہ رضیہ نے بتایا کہ انکی والدہ جب اس موقع کا ذکر کرتی تھیں تو یہی بتاتی تھیں کہ جو لوگ اس موقع پر گھر آتے تھے ان کی زبان پر یہی تذکرہ ہوتا تھا کہ آج فلاں جگہ پر ایسا واقعہ رونما ہوا اور کوئی خبر دیتا کہ فلاں گاﺅں یا بستی کی حالت تو اس سے بھی ابتر ہے اور اس وقت سب کی یہی نماز میں دعا ہوتی تھی کہ ہمیں ایسا ملک ملے جہاں ہم اپنے مالک حقیقی کی ایسی ہی عبادت کریں جیسا کہ اس نے حکم دیا ہے۔
 سندھ کے اندرون سرحد کے پاس حالات زیادہ مخدوش تھے۔ اس لیے حیدرآباد میں وہاں کی اکثریت نے نقل مکانی کرکے رہائش اختیار کی۔ محترمہ رضیہ بیگم نے بتایا کہ وہ جب کم عمر تھیں تقریبا 4 سال کی تھیں کہ انکے والد رضاے الہی سے چل بسے۔ دادا اور چچا جان نے پرورش کی۔ اس زمانے میں زمینیں ہوا کرتی تھیں وہی ذریعہ معاش تھا۔ ایک دکان بھی کھولی گئی تھی۔ زمین کا کام دادا نے سنبھالا ہوا تھا جبکہ سامان اور مویشی لانے اور اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لیجاکر فروخت کرنے کا کام چچا کیا کرتے تھے تو ہم سب کا ہی گزارا اچھا ہوتا تھا۔محترمہ رضیہ صاحبہ نے اس دور کا ذکر کیا کہ جب ٹھٹھہ میں پچھلے دور کے حکمرانوں نے وہاں بڑے بڑے قلعے تعمیر کروائے۔ محترمہ رضیہ صاحبہ نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ ایک مضبوط مملکت کیلئے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کریں ان کا بنیادی مقصد طلباو طالبات کو بہترین خطوط پر تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا ہے تاکہ حصول علم سے فراغت کے بعد وہ اپنی علمی قابلیت کے ذریعہ نہ صرف معاشرے کے کارآمد اور فعال شہری بن سکیں بلکہ قوم و ملک کی ترقی اور اسے درپیش مسائل کا بخوبی مقابلہ کر سکیں۔ ان کا خیال ہے کہ تعلیمی اداروں کو اپنے تقدس کا خیال رکھنا چاہیے اور فیشن شو قسم کی چیزوں سے دور رکھنا چاہیے بلکہ ایسے سیمنارز اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جانا چاہیے جو ہنر مندی میں اضافہ کرے۔ جدید تعلیمی و ہنر مندی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو ۔ جدید فن تعمیر کی طرف بھی توجہ دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے چند ہی جملوں میں ڈھائی صدیوں کا فاصلہ طے کرادیا اور کہا جب انسان گھاس پھوس کو دیکھے تو اسے حقیر نہ جانے کہ آندھی طوفان سے بڑے بڑے تناور درخت ٹوٹ کر گر جاتے ہیں لیکن اس وقت معمولی سمجھا جانے والی گھاس اپنی جگہ پر موجود رہتی ہے۔ یہ قدرت کا حیرت انگیزنظام ہے۔
1800ءمیں جب ٹھٹھہ میں اس وقت کے حکمران نے ہجرت کی تو اپنے ساتھ ہر شعبہ زندگی کے ہنر مند ساتھ لائے جو امور سلطنت کو سنبھالتے تھے اور ایک وہ طبقہ بھی تھا جو زندگی کے روزمرہ کے کاموں کیلئے ضروری ہوتا ہے جیسے مویشی پالنے والے، قصاب، حجام اور مال برداری کیلئے ملازمین کی ایک کھیپ اپنے ساتھ لائے۔ صدیاں گزر گئیں جو تناور درخت تھے وہ بڑے بڑے طوفان کا سامنا نہ کرپائے اور جڑ سے اکھڑ گئے بس انکا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں ملے گا یا پھر اس وقت کی تعمیرات میں ان کے شاندار ماضی کا عکس دیکھا جا سکتا ہے لیکن جو گھاس کی مانند تھے وہ آج بھی اسی جگہ پر اپنی کسی نہ کسی حیثیت میں موجود ہیں۔ بے شک دنیا کی ترقی نے عوام کی اکثریت کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے لیکن پھر بھی اپنی مٹی سے ہر انسان کو محبت ہوتی ہے اس لیے اس کو اپنے آبائی علاقے کی ترقی اور وہاں رہنے والوں کی بہبود کا خیال رہتا ہے۔
 محترمہ رضیہ بیگم نے بتایا کہ جنگ سے ایک سال پہلے تک مٹی کے تیل کی لالٹین جلایا کرتے تھے اور گیس کی روشنی میں کام کیا جاتا تھا اور یہ بھی بہت محدود پیمانے پر ورنہ یہی زندگی تھی کہ سورج کے ساتھہ ہی کام شروع ہوتا اور سورج کے غروب ہوتے ہی لوگ اپنے آرام دہ چارپائی پر دنیا بھر کی باتیں کرتے۔ دوستوں کی بیٹھک مردانے میں ہوتی۔ اب یہ فرصت کے لمحات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ہیں جیسے کہ نایاب ہو گئے ہوں۔ خواتین کی دلچسپی کہانیوں میں ہمیشہ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب خواتین کے میگزین شائع ہونے لگے اور ناول لکھے جانے لگے تو ہمیں تو رضیہ بٹ کے ناول ایسے پسند تھے کہ کوئی انکا ناول چھوڑا نہیں۔ ہر ناول کو پڑھ ڈالا اب تو کچھ ایسا سلسلہ ہو گیا ہے کہ ہر ما ہ ہی ہاکر ڈائجسٹ بھی دے جاتا ہے۔ اب اس میں اکثر ناول قسط وار آتے ہیں تو اب اس کا ہی رجحان ہو گیا۔ اس کو ہر ماہ لوگ پڑھتے ہیں اور کئی کئی سال کے بعد ایک ناول اختتام ہوتا ہے۔ بس سمجھیں یہ وقت گزارنے کا ایک مشغلہ ہے۔ کئی لوگ اچھا لکھ رہے ہیں جنہیں شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کی رسومات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پہلے جہاں لوگ اپنے گھروں میں سادگی سے مہمانوں کی مہمانداری کیا کرتے تھے ۔ اب ایک ہی دن تقریب کا اہتما م کر لیا کرتے ہیں۔ معاشرے میں سادگی کم اور بناوٹ کا عنصر زیادہ ہو گیا ہے۔ محترمہ رضیہ بیگم نے بتایا کہ جس وقت وہ اسکول کی طالبہ تھیں تو اس وقت انکی کلاس میں 20طالبات تھیں لیکن جب میٹرک کا امتحان ہوا تو اس میں دوسرے شہر جاکر امتحان دینا تھا اور اس وقت چونکہ آمد ورفت کی سہولیات اتنی نہیں تھیں تو صرف 3طالبات نے میٹرک کا سالانہ امتحان دیا اور پاس ہوئیں۔1971ءکی جنگ ہم پر پڑوسی ملک نے مسلط کی۔ اس وقت مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ ہند آج بھی کشمیریوں کو خود ارادیت کا حق دینے سے بھی انکاری ہیں۔
 میں نے سندھ یونیورسٹی حیدرآباد سے مسلم ہسٹری میں ایم اے پرائیویٹ امتحان پاس کیا۔ 60کی دہائی میں گاﺅں میں اونٹ کو سواری کے لیے استعمال کرتے تھے پھربعد میں لاریاں چلنے لگیں۔ سڑکیں بنیں اور گاڑیاں لاریاں اور ٹرک چلنے لگے۔ شہر میں گھومنا اچھا لگتا ہے لیکن جو اپنے آبائی گھر کی بات ہوتی ہے وہ سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہوتا۔ ہر انسان اپنے گھر اور وطن سے محبت رکھتا ہے۔ اپنے کزن سے شادی ہونے پر رسومات کے سلسلے میں بتایا کہ ایک خاندان ہونے پر ایک جیسے ہی رسومات ہونگی۔ یہ ضروری نہیں کیونکہ اب بہت کچھ وقت کے ساتھ بدل گیا ہے، اب ڈھولکی رکھی جاتی ہے پھر یہی نہیں بلکہ جب دلہن خود بھی کالج یا یونیورسٹی کی طالبہ ہو تو ان کی ہم جماعت کی ایک دن الگ ڈھولکی کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ سب کو شوق ہوتا ہے اپنی سہیلی کی شادی میں شرکت کا اور لڑکیاں سب سے زیادہ گیت گانے کے مقابلے کو پسند کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے کالج کے زمانے میں ایک ثقافتی شو میں ماروی بنیں تھیں۔ محترمہ رضیہ بیگم نے بتایا کہ ان کے شریک سفر اعلی تعلیم یافتہ ہیں اپنی نرم طبیعت کی وجہ سے احباب میں پسندیدہ ہیں۔ مدینہ شریف میں ہم لوگ کئی سال رہے۔ اس وقت اپنا بزنس تھا، خوب رونق تھی، سب سے اچھی بات یہ تھی کہ تقریبا روزانہ ہی مسجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے جاتے تھے۔ وہ میری زندگی کے یادگار دن تھے۔ میرے بچے والدین کے فرماں بردار ہیں۔ بڑے صاحبزادے نے اسرا یونیورسٹی حیدرآباد سے میڈیسن کیا۔ وہ ڈاکٹر ہیں جبکہ دوسرے صاحبزادے نے مہران یو نیورسٹی سے انجینئرنگ کا پروگرام مکمل کیا۔ صحت مند مشغلہ انسان کو ہمیشہ چاق و چوبند رکھتا ہے رضیہ صاحبہ نے بتایا کہ وہ لیڈیز کلب کی ممبر ہیں۔ یہ بہت پرانا ادارہ ہے جو مستحق لوگوں کی مدد کے علاوہ تعلیمی سہولت دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا بچوں کی تربیت میں ماں اور باپ دونوں کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے۔ ہمارے بچوں میں بھی اپنے والد سے نرم دلی اور مہمان نوازی آئی ہے ۔جبکہ میری یہ خواہش ہے کہ ہر لڑکی چاہے اس کے گھر میں ملازم کیوں نہ ہوں۔ اسے سلائی کڑھائی بھی آتی ہو اور کھانا پکانا بھی جانتی ہو یہ سب شوق سے کیا جانا چاہیے۔ اپنے گھر کو اپنا سمجھنا چاہیے۔ پھوہڑ پن کی کسی طور تعریف نہیں کی جاسکتی۔ اسمارٹ رہنے کا طریقہ بھی انہوں نے بتادیا کہ ہم لوگوں نے سبزیاں اپنے کھانوں میں لازمی شامل کیں۔ والدہ کے زمانے میں تو ہمارے گاﺅں میں گھر پر ہی گائے ہوا کرتی تھی جس سے دودھ، دہی، مکھن سب کچھ گھر کا تازہ ہی ملتا تھا۔ بعد میں لوگوں نے گھی اور مکھن کھانا کم کردیا لیکن صبح گاﺅں کے لوگوں کا ناشتہ پراٹھے پر مکھن ہوتا اور لسی کا بڑا گلاس۔ کھلی ہوا میں ہر جگہ پیدل جانا آنا ہوتا کہ اس سے صحت بھی اچھی رہتی ہے اور انسان بہت برسوں تک بیماریوں سے دور رہتا ہے۔ جناب محمد خان میمن کا کہنا ہے کہ میری بیگم لوگوں میں تعلیم عام کرنے کی مہم میں پیش پیش رہتی ہیں۔ دونوں بیٹیوں اور بیٹوں کو بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے پر خاندان بھر کی خواتین انہیں اپنا رہنما سمجھتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
                

شیئر: