Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا کی نظروں کا رخ کدھر؟

د/ عبدالرزاق بن عبدالعزیز المرجان ۔ عکاظ
آجکل دنیا کی نظروں کا رخ کدھر ہے؟ آیا سوڈان توجہات کا محور ہے یا الجزائر؟ کیوبا پر نظر ہے یا پاک و ہند کے درمیان کشمکش کی جانب نظریں اٹھی ہوئی ہیں؟
طرفہ تماشا یہ ہے کہ سوشل میڈیا ،بی بی سی، الجزیرہ، مغربی اخبارات ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں ، ہیومن رائٹس واچ اورایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کسی کی بھی دلچسپی کا موضوع مذکورہ اہم واقعات نہیں ہیں۔ ان سب کا سارا زور سعودی پبلک پراسیکیوشن پر ہے جس نے سعودی عرب کے مفادات کو تہہ و بالا کرنے والی شخصیات کیساتھ تحقیقات کے بعد فرد جرم جاری کی ہے۔ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سعودی پبلک پراسیکیوشن نے پوچھ گچھ کے دوران مطلوبہ کارروائی کا احترام نہیں کیا جبکہ زیر حراست افراد کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔
اس سے قبل دشمنوں نے سعودی عرب کے امن و استحکام ، اس کے سماجی نظام اور قومی ہم آہنگی کو منظم شکل میں نقصان پہنچانے والے” ستاروں “ کی رہائی کیلئے خاشقجی کیس کا سہارا لیا تھا۔ اسے دباﺅ ڈالنے کیلئے استعمال کیا تھا جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ 
الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے زیر حراست افراد پر مندرجہ ذیل الزامات عائد کئے۔
٭ زیر حراست افراد مملکت دشمن تنظیموں اور افراد سے رابطے میں تھے۔
٭ مملکت کے اعلیٰ مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے ایک اہم سرکاری ادارے کے اہلکاروں سے خفیہ معلومات اور دستاویزات حاصل کیں۔
٭ بیرون مملکت مقیم دشمنوں کو مالی او رمعنوی تعاون دیا۔
پبلک پراسیکیوشن نے بتایا کہ 9ملزمان (5مرد اور 4خواتین) نے شواہد اور قرائن سے لاچار ہوکر اپنی سرگرمیوں کا اعتراف کرلیا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ مملکت دشمن تنظیموں اور شخصیات سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے اہم سرکاری ادارے کے رہنماﺅں کی مدد سے خفیہ دستاویزات اور معلومات حاصل کی تھیں جبکہ خارجی عناصر کی مالی اور ذہنی مدد کا بھی اقرار کیا۔ ملزمان کے اعترافی بیان 2رمضان 1439ھ کو ریاستی سلامتی ادارو ںکے جاری کردہ بیان کے عین مطابق ہیں۔
یہاں ایک سوال یہ ہے کہ آیا فرد جرم کے معنیٰ (جرم) قرار دینے کے ہیں؟
اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ نہیں ہر گز نہیں۔ یہ درست ہے کہ سب سے پہلے ریاستی سلامتی کے اداروں نے مملکت کے اعلیٰ مفادات کو نقصان پہنچانے کے درپے خواتین و حضرات تک رسائی اور انہیں حراست میں لینے کیلئے بڑی محنت کی اور پھر پبلک پراسیکیوشن نے ملزمان کے خلاف الزامات کی حقیقت جاننے کیلئے مطلوبہ کارروائی کی تاہم ان سب کا مطلب یہ نہیں کہ ملزمان کو مجرم قرار دیدیا گیا ہو۔ معاملہ عدالت میں ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب تک الزام ثابت نہ ہو تب تک ملزم بری سمجھا جاتا ہے۔ عدالت الزام ثابت نہ ہونے پر کسی کو بھی بری کرسکتی ہے اور الزام ثابت ہونے پر سزا بھی سناسکتی ہے۔ سعودی عدالتیں دہشتگردی کے مقدمات میں متعد د ملزمان کو باعزت بری کرچکی ہیں جبکہ دہشتگردی کا جرم ثابت ہوجانے پر عبرتناک سزائیں بھی سناچکی ہیں۔
چونکہ خاشقجی کے قتل کے ملزمان اور سعودی عرب کے امن و سلامتی کو زک پہنچانے کے جرائم کے ملزمان کے معاملات عدالتو ںکے حوالے ہوچکے ہیں اسلئے سیٹلائٹ چینلز اور مشکوک تنظیمیں منظم تشہیری مہم ضرور چلائیں گی۔ اس سے قبل 47دہشتگردوں پر مقدمہ کے دوران بھی ہم اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ العوامیہ کے دہشتگرد مقدمہ کے دوران بھی یہ تماشا ہوا تھا۔ بہتر ہوگا کہ سب لو گ نئے ملزمان پر عدالتی کارروائی اور پھر عدالتوں کے فیصلے کا انتظار کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: