Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرتارپور معاملے پر بات چیت دکھاوا؟

کراچی ( صلاح الدین حیدر ) پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرتارپور معاملے پر ہندوستانی سرحدی علاقے میں ملاقات ہوئی۔ پاکستان کی طرف سے مذاکرات میں پیش رفت کا مژدہ سنایا گیا ۔ برسوں بعد مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا لیکن اختلافات کی جھلک پھر بھی نظر آتی ہے۔ اعلامیہ تو ایک سرکاری نوٹ ہوتا ہے جو 2 ملکوں کے درمیان بات چیت کے بعد ریکارڈ کےلئے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔اصل بات تو اس کی روح ہے کہ اس پر کتنا عمل کیا جائے گا۔ پاک ہند تعلقات پچھلے 2 دہائیوں سے انتہائی خراب ہیں۔ ٹھیک ہے کہ نواز شریف کی نواسی کی شادی میں نریندر مودی لاہور آئے لیکن اسے سرکاری دورہ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ نجی حیثیت سے اپنے دوست کے گھر آئے تھے۔ کوئی سرکاری تقریب نہیں ہوئی کوئی پروٹوکول نہیں دیا گیا تو پھر یہ بات مجبوراً کہنا ہی پڑتی ہے کہ امن و سلامتی 2 ملکوں کی حکومتوں کے درمیان جذبہ خیرسگالی کی ضمانت ہوتی ہے۔ 2 شخصیتوں کے درمیان نہیں۔ مودی کے دورے لاہور کی کوئی اہمیت نہیں۔ اب جبکہ پاکستان نے کرتارپور سرحد کھولنے میں پہل کی ہے تو مجبوراً ہند کو اس کا جواب دینا پڑا۔ ایسا نہ کرنے پر بی جے پی کو سکھوں کی ناراضی مول لینی پڑتی جو کوئی بھی سیاسی پارٹی انتخابی مہم کے دوران نظر انداز کرہی نہیں سکتی لیکن ہند نے اگر دل سے پاکستانی تجویز کو مانا ہوتا تو پھر ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج کو چند گھنٹوں بعد یہ بیان دینے کی کیا ضرورت تھی کہ پاکستان سے بات نہیں کرینگے۔ آخر اس کا مطلب کیا نکالا جائے۔ مشرف کے زمانے میں بھی آگرہ سمٹ دونوں ملکوں کو بہت قریب لے گئی تھی لیکن سشما سوراج اور اس وقت کے وزیر داخلہ لال کشن ایڈوانی نے اسے سبوتاژ کردیا اور سمٹ ناکام ہوگئی۔ اب دونوں ملکوں کی طرف سے کرتارپور پرگفتگو آگے بڑھی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کے مطابق صرف ایک نقطے کو حل کرنا باقی ہے جسے 2 اپریل کو ہونے والے اجلاس میں حل ہونے کی بھرپور امید ہے تو پھر ایسا بیان کیوں؟ ظاہر ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے محض دنیا کو دکھانے اور سکھوں کا دل رکھنے کےلئے اس بات کو آگے بڑھایا ہے۔ سشما سوراج نے یہ بات واضح کردی کہ اگر عمران خان اتنی ہی مدبر ہیں تو مسعود اظہر کو پاکستان کے حوالے کریں۔ پاکستان کے ساتھ اسی وقت بات چیت کرینگے جب وہ اپنی سرزمین کو دہشتگردی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ عمران خان نے ایک نہیں سو بار کہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی کو بھی دہشتگردی کی اجازت نہیں دے گا ۔ حکومت پاکستان نے نیشنل ایکش پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کیں۔ ان کے اکاونٹس منجمد کردیئے۔ اب ہندوستان کی یہ محض ہٹ دھرمی ہے کہ کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر کے پاکستان کو دنیا میں بدنام کیا جائے مگر اب یہ کام مشکل نظر آتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ سب ہی کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم پر پریشان ہیں۔ ان کی پریشانی اپنی جگہ لیکن ہندوستان کی مذمت نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہندوستان کی ہمت بڑھ جاتی ہے اور وہ پاکستان کو ہر بات پر مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ یہ اس کی پرانی روش ہے۔ کرتار پور راہداری کے معاملے پر بات چیت تو ہوگئی لیکن ہندوستان کس قدر اس پر عمل کرتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔
 

شیئر: