Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوزی لینڈ کا جرم اور معاشروں میں شکست و ریخت

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
متمدن دنیا کو تباہ و برباد معاشروں میں تبدیل کرنے کیلئے معمولی سی چنگاری  کی ضرورت ہے۔ تاریخی انتقام کے نعروں کا احیا اور مقدس عبارتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے متمدن ممالک میں جنگ کا ماحول برپا کیا جاسکتا ہے۔  جنگ کے بادل ان ممالک کے مطلع پر  نظر آرہے ہیں۔ ’’فیس بک ‘‘ نے اعلان کیا ہے کہ نیوزی لینڈ میں مساجد کے جرم پر 15لاکھ خطوط  اور وڈیو حذف کئے گئے ہیں۔ 
مساجد میں نمازیوں پر حملے سے ناجائز فائدہ اٹھانے کیلئے سیاسی تاجر میدان میں کود پڑے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا کے ایک رکن پارلیمنٹ نے جرم  کو درست قرار دیتے ہوئے اشتعال انگیزی کی ۔ اسی طرح ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بھی اس سانحہ سے پورا پورافائدہ اٹھانے کے درپے ہیں۔  جو مقامی انتخابات کی مہم چلائے ہوئے ہیں۔ ترکی میں انتخابی اجتماعات کیلئے  ٹینٹ لگائے جارہے ہیں اور ان میں نیوزی لینڈ کی مساجد میں نمازیوں پر دہشتگردانہ حملے کی وہ فلم دکھائی جارہی ہے جسے ’’فیس بک ‘‘ نے مٹا دیا ہے۔ ترک صدر غالباً یہ حرکت کرکے نمازیوں پر  دہشتگردانہ حملے سے نالاں ترک ووٹروں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔  ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہی ترک صدراس وقت  ادلب کے باشندوں کی مدد کو نہیں پہنچے تھے  جب ایرانی اور  روسی ادلب کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے تھے او رہزاروں بے قصور شہریوں کا خون بہا رہے تھے۔ ادلب میں جو کچھ ہورہا تھا ترک فوجی براہ راست اس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ 
28سالہ دہشتگرد جس نے 50سے زیادہ نہتے نمازیوں کو دو جامع مساجد میں ہلاک کیا۔ وہ نئے معاشرے کے نظام کی پیداوار ہے۔ اس نے سوشل میڈیا کی آغوش میں آنکھیں کھولیں۔ سوشل میڈیا نے نفرت اور اشتعال انگیزی کا طوفان برپا کرکے اخلاقیات، اقدار اور قوانین کی بڑی دیوار کو مسمار کر ڈالا۔اس کی ذمہ داری مصنف ، ناقد، رپورٹر،  اشتعال انگیز مواد وصول کرنے اور قانونی و سیاسی اتھارٹی کے ذمہ داران کے درمیان بٹ کر رہ گئی۔
سوال یہ ہے کہ آج جو کچھ ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہ لوگ اس کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے قاتل کو تاریخ کی کتابوں ، مقدس تصنیفات اور تشدد پر اکسانے والے دھوم دھڑکے والے گانے سنائے ، لاشوں کی تصاویر ، واٹس ایپ گروپ  کے حوصلہ افزا پیغامات ، قیدیوں پر تشدد کے واقعات  بتائے، سکھائے ، پڑھائے سنائے  یا وہ لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں نے دہشتگردی اور نسل پرستی کے جرائم کئے۔ کیا فیس بک اس کا ذمہ  دار ہے۔جس نے ان دنوں اسکول اور فیملی کا کردار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔  یا وہ لوگ اس کیلئے جواب دہ ہیں جو دینی ، نسلی  ادارو ں، انتہا پسندانہ اور فاششزم کے مراکز سے اشتعال انگیز پیغام پھیلا رہے ہیں۔ یا اسکا ذمہ دار بندوق بردار وہ فرد ہے جو قریب ترین مسجد یا کلیسا یا اسکول پہنچ کر راہگیروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہلاک کردیتا ہے۔
دہشتگردی اور نفرت کی سرگرمیاں پہلے بھی تھیں لہذا سوال  یہ ہے کہ کل کے دہشتگردوں اور آج کے دہشتگردوں میں فرق کیا ہے؟
کل تک معاشرہ منظم تھا۔ اسکا اپنا ایک سسٹم تھا۔ آج کل معاشرہ چوپٹ کھلا ہوا ہے۔ انارکی کا راج ہے۔ ممکنہ دہشتگرد کسی نام اور عنوان کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ وسیع البنیاد نیٹ ورک ان کی پشت پر ہے۔انہیں افکار و نظریات مہیا کررہا ہے۔  انہیں اسلحہ تک رسائی میں مدد دے رہا ہے۔ انہیں ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت بھی فراہم کررہا ہے۔ انہیں معاشرے اور جنت کے عظمت یافتگان کی فہرستو ںمیں شامل کررہا ہے۔ 
ایسے غیر معیاری ماحول میں کسی بھی شخص کو اس وقت تک نہیں گرفتار کیا جاسکتا تاوقتیکہ وہ جرم کا ارتکاب نہ کرلے۔ زیر تربیت قاتلوں کو گرفت میں نہیں لیا جاسکتا۔ انکی گرفتاری اس وقت ممکن ہوگی جب فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام وغیرہ بند کردیئے جائیں۔ یہ اقدام ناممکن ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ کسی بھی شہر کی بجلی کا کنکشن کاٹا جاسکتا ہے۔ اس مشکل چیلنج کے ماحول میں متمدن معاشروں کیلئے جو کچھ کیا جاسکتا ہے وہ بیحد محدود ہے۔ متمدن معاشرے آج واردات کی جگہ پرپھیلے خون کو صا ف کرنے ، مذمت کے بیان جاری کرنے ، وارداتوں کی وڈیوز پر پابندی لگانے  پر اکتفا کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: