Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میوزک ہٹ تو فلم ہٹ‘، بالی وڈ انڈسٹری میں آئٹم سانگ کب شامل ہوئے؟

’محبوبہ محبوبہ‘ گیت کا ’شعلے‘ کی کہانی سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ فلم کا آئٹم سانگ تھا (فائل فوٹو: سکرین گریب)
سنہ 2025 فلم ’شعلے‘ کی ریلیز کا 50 واں سال ہے اور اس کا ایک ایک قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل ہم نے اِس کی میکنگ پر بات کی لیکن اِس میں ایک گیت ’محبوبہ محبوبہ‘ ہے جو انتہائی مقبول ہوا۔
یہ فلم سنہ 1975 میں انڈیا کے یومِ آزادی 15 اگست کے موقعے پر پہلی بار ریلیز کی گئی تھی۔
اس گیت کا فلم کی کہانی سے کوئی لینا دینا نہیں، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فلم شعلے میں پیش کیا جانے والا آئٹم سانگ ہے۔
 کہا جاتا ہے کہ جب کسی فلم کی کامیابی میں شک و شبہ ہو تو اس میں فلم سازوں کے مطالبے پر آٹم سانگ ڈال دیا جاتا ہے۔
معرف نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر جاوید اختر نے ایک بار جے پور لٹریری فیسٹیول میں کہا تھا کہ ’آئٹم سانگ کا فلم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جیسے کہ بیک گراؤنڈ میوزک کا نہیں ہوتا، لیکن فلمی دنیا میں ایک میک بیلیف کا سماں پیش کیا جاتا ہے اور اِس کے اثرات ہوتے ہیں۔‘
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ فلم ’شعلے‘ بناتے وقت اس کی کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں تھی۔ بہرحال ہم یہاں فلم شعلے یا اداکارہ ہیلن کے ڈانس والے گیت ’محبوبہ محبوبہ‘ پر بات نہیں کر رہے بلکہ انڈین فلم انڈسٹری میں آئٹم سانگ پر بات کر رہے ہیں۔
آئٹم سانگ میں عام طو پر اداکارائیں بے باک لباس میں نظر آتی ہیں اور یہ طریقہ بڑی تعداد میں ناظرین کو فلموں کی جانب راغب کرنے کا وسیلہ سمجھا جاتا ہے، تاہم اب اس میں مَردوں کی شمولیت بھی نظر آنے لگی ہے اور ’توبہ توبہ‘ اِس کی مثال ہے۔
چنانچہ اس بارے میں انڈیا ٹوڈے کی انویتا سنگھ لکھتی ہیں کہ موسیقاروں اور پروڈیوسروں کے مطابق یہ اکثر فلم کی ہِٹ کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے اور اسے ریلیز سے قبل فلم کی تشہیر کے لیے ایک مارکیٹنگ ٹُول کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مشہور میوزک کمپوزر للیت پنڈت نے انڈیا ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے اس پر مایوسی کا اظہار کیا لیکن انہوں نے کہا کہ ’اگر میوزک ہِٹ ہو جائے تو فلم کے محفوظ زون میں جانے کا کم سے کم 50 فیصد امکان پیدا ہو جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کسی فلم کی تشہیر کے لیے گانوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ فلم کی شوٹنگ ہو گئی، پروڈکشن مکمل ہو گئی، اور پھر پروڈیوسرز میرے پاس آتے ہیں اور ایک ہِٹ گانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘

شاہ رخ خان اور ملائکہ اروڑا نے فلم ’دل سے‘ میں مسحورکُن دُھن پر آئٹم سانگ ’چھیاں چھیاں‘ کیا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

للیت پنڈت کے مطابق ’مسئلہ تب ہوتا ہے جب فلم کی کامیابی میں شک پیدا ہو جاتا ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو آپ اِن طریقوں کا سہارا لیتے ہیں۔‘
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فلم کو دوبارہ کسی گیت کے ساتھ ریلیز کیا جاتا ہے۔ فلم تیزاب میں ’سری دیوی کو نچاؤ تو جانے‘ والے گيت کو بعد میں شامل کیا گیا تھا۔
فلم مارکیٹنگ کے ماہر اور پروڈیوسر گریش جوہر نے کہا کہ ’آئٹم سانگ نے خود کو ایک بہترین مارکیٹنگ اثاثہ ثابت کیا ہے، لیکن یہ ہمیشہ ’سائیڈ ڈش‘ کے طور پر استعمال نہیں ہوتا۔ یہ اکثر مرکزی ایکٹ کا حصہ ہوتے ہیں، جیسا کہ پُرانے زمانے میں ہوا کرتا تھا۔‘
اگر آئٹم سانگ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ہمیں فلموں میں شروع سے ہی نظر آتا ہے گو کہ یہ اس کے پلاٹ کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اس میں مجروں کو دکھایا جاتا تھا۔
سنہ 1951 کی راج کپور کی فلم ’آوارہ‘ میں ہم ’ایک دو تین، آ جا موسم ہے رنگین‘ میں کوکو کو دیکھتے ہیں اور یہ ایک دانستہ کوشش نظر آتی ہے۔
اسی طرح 1952 کی دلیپ کمار کی فلم ’آن‘، ’ہم اِک گیت‘، ’آگ لگی تن من میں‘ کو دیکھتے ہیں۔ یہ آئٹم سانگ کے ابتدائی نقوش ہیں۔
سنہ 1930 کی دہائی میں میڈم ازوری کو رقص پر مبنی گیت پر دیکھا گیا جبکہ کوکو نے 1949 میں تقریباً 17 فلموں میں ڈانس پر پرفارمنس دی۔

فلم ’تیزاب‘ میں مادھوری ڈکشٹ کو ’ایک دو تین‘ پر پرفارمنس دیتے ہوئے دیکھا گیا (فائل فوٹو: سکرین گریب)

 پھر کلاسیکی رقص کے ساتھ معروف اداکارہ ویجنتی مالا آئٹم گرل کے طور پر نظر آتی ہیں اور انہیں ’دیوداس‘، ’مدھومتی‘، ’امرپالی‘، ’سادھنا‘ اور ’سنگھرش‘ جیسی فلموں میں اسی انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اگرچہ ان فلموں کے پلاٹ میں ان کے گیتوں کی معنویت بھی ہے لیکن ماہرین انہیں آئٹم سانگ کے زُمرے میں رکھتے ہیں۔
پھر ہیلن کا دور آتا ہے جنہیں ہم ’محبوبہ محبوبہ‘ سے لے کر ’میرا نام چن چن چو‘، ’پیا اب تو آجا‘، ’یہ میرا دل پیار کا دیوانہ‘، ’او حسینہ زُلفوں والی‘، ’آ جانے جاں‘ وغیرہ شامل ہیں۔
یہاں تک کہ دلیپ کمار نے اپنی فلم ’گنگا جمنا‘ میں دو دو آئٹم گیت شامل کیے جن میں ’تورا من بڑا پاپی‘ اور ’گھنگھروا مورا چھم چھم باجے‘ شامل ہیں۔
بہرحال اس کے بعد ہمیں آئٹم سانگ میں ہر قسم کا ارتقا نظر آتا ہے اور آئٹم نمبر کے رجحان کے ہر عنصر میں زبردست تبدیلی نظر آتی ہے۔ 
جہاں گلزار کی دُھنوں نے شاعری اور ’چھیاں چھیاں‘ میں ایک حساس، بے چین قسم کی محبت کو جنم دیا، وہیں کترینہ کیف کی ’چکنی چمیلی‘ ایک بے باک عورت کے بارے میں ہے جو اپنی جنسیت کا اظہار کرنے سے نہیں ڈرتی۔
سنہ 1998 آتے آتے ہم سپرسٹار شاہ رخ خان اور ملائکہ اروڑا کو فلم ’دل سے‘ میں اے آر رحمان کی موسیقی پر’چھیاں چھیاں‘ کی مسحورکن دُھن پر آئٹم سانگ کو گامزن دیکھتے ہیں، جس کے بارے میں کوریوگرافر فرح خان نے کہا کہ اسے ٹرین کی چھت پر بغیر کسی ہارنیس کے شُوٹ کیا گیا تھا۔

 اداکارہ شلپا شیٹی نے آئٹم سانگ ’آئی ہوں یوپی بہار لُوٹنے‘ پر پرفارمنس دکھائی (فائل فوٹو: سکرین گریب)

پھر ہمیں ریمکس آئٹم سانگ کا دور نظر آتا ہے۔ اس میں اکثر پرانے گیتوں کو ریمکس کرتے دیکھا گیا ہے۔ ’کانٹا لگا‘ اور ’یہ میرا دیوانہ پن ہے‘ وغیرہ اس کی مثال ہیں۔ 
کچھ ریمکس کو فلموں میں مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں، اور پھر ان پر بھی آئٹم ٹریک کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں بہت سی ہیں ( گھاگھرا اور سونا کتنا سونا ہے) وغیرہ۔ 
ٹی سیریز کے سربراہ اور پروڈیوسر بھوشن کمار نے ایک انٹرویو میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی کمپنی نہ صرف ریمکس کرتی ہے بلکہ گانے کو ’دوبارہ‘ بناتی ہے۔
بہرحال آئٹم سانگ کی مقبولیت میں وقت کے ساتھ اضافہ نظر آیا، ہم نے فلم ’تیزاب‘ میں مادھوری ڈکشٹ کو ’ایک دو تین‘ پر پرفارم کرتے دیکھا گیا۔
اس کے علاوہ ’چولی کے پیچھے کیا ہے‘ اور ’دھک دھک کرنے لگا‘ جیسے گانے بھی اسی زُمرے میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ ان سب پر مادھوری ڈکشٹ کو پرفارم کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اداکارہ شلپا شیٹی کو ’آئی ہوں یوپی بہار لُوٹنے‘ میں دیکھا جا سکتا ہے یا پھر بپاشا باسو کو ’بیڑی جلائی لے جگر سے پیا‘۔ آپ ارمیلا متوںڈکر کو چائنہ گیٹ فلم میں ’چُما چُما‘ پر پرفارم کرتے دیکھ سکتے ہیں۔
للیت پنڈت نے کہا کہ فلم ’دبنگ‘ میں اُن کا گیت ’مُنی بدنام ہوئی‘ کو کئی ایوارڈز ملے۔ اس میں ملائکہ اروڑا نے کامیابی کے ساتھ پرفارم کیا اور اس کے بعد وہ کئی فلموں میں آئٹم سانگ کرتے ہی نظر آئیں۔

ریمکس کو مختلف انداز میں پیش کر کے ان پر آئٹم ٹریک کا لیبل لگا دیا جاتا ہے، ’گھاگھرا‘ اس کی مثال ہے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

میوزک پروڈیوسر للیت پنڈت بتاتے ہیں کہ کچھ فلمی ہدایت کار ایسے ہیں جو خاص طور پر اپنے پروجیکٹس کے لیے گانے بنوانے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ 
ان فلم سازوں میں سنجے لیلا بھنسالی، کرن جوہر اور موہت سُوری وغیرہ شامل ہیں۔ وہ اپنی فلموں کے لیے ایک مخصوص قسم کا ساؤنڈ ٹریک رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔
اب آپ مدھومتی کا گیت ’بچھوا‘ لے لیں یا پھر ’کارواں‘ کا ’پیا اب تو آجا‘، یا پھر شعلے کا گیت ’محبوبہ محبوبہ‘، ’اوم کارا‘ کا گیت ’بیڑی جلیے لے‘ یا ’نمک عشق کا‘، ’دل سے‘ فلم کا ’چھیاں چھیاں‘، ’بنٹی اور ببلی‘ کا ’کجرارے کجرارے‘، اور شول کا گیت ’یوپی بہار لُوٹنے‘، یہ سب ایسے گیت ہیں جہاں موسیقی کی توانائی اپنے جوش و خروش پر نظر آتی ہے اور آپ کے قدموں کو تھرکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

 

 

شیئر: