Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیوزی لینڈ کی روا داری

عبداللہ بن بجاد العتیبی ۔ الشرق الاوسط
نیوزی لینڈ کی مساجد میں جمعہ کے نمازیوں پر آسٹریلیا کے دہشتگرد مجرم کے گھناﺅنے حملے کے بعد نیوزی لینڈ کے عوام اور حکومت نے مذہبی روا داری کے حوالے سے پوری دنیا کو منفرد روزگار نمونہ پیش کیا۔ یہ نمونہ ایسے عالم میں سامنے آیا جبکہ آزمائش کے بادل ہر سو چھائے ہوئے تھے۔یہ نمونہ ایک طرح سے آسمانی عطیہ ہے۔
دہشتگرد نے گھناﺅنے دہشتگردانہ حملے کی وڈیو اس طرح سے بنائی اور پیش کی گویا یہ وڈیو کا ایسا گھناﺅنا کھیل ہے جسے دنیا میں بہت سارے لوگ کھیل رہے ہوں خاص طور پر بچے اور جوان کھیلتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد نیوزی لینڈ کے عوام اور سیاستدانوں نے جس درجے کی روا داری کا مظاہرہ کیا وہ بجا طور پر اس بات کا حقدار ہے کہ سارا جہاں نیوزی لینڈ کے عوام اور سیاستدانوں کو سلام تعظیم پیش کرے۔ اسکی تفصیلات پر جتنا زیادہ غور کیا جائیگا اتنے ہی زیادہ اسکے روشن پہلو نمایاں ہوتے چلے جائیں گے۔ فرض کیجئے کہ اگر اس قسم کا واقعہ کسی مسلم ریاست میں پیش آتا تو بلاشبہ نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے جس درجے کی روا داری کے پیغامات دیئے ہیں کسی بھی مسلم ریاست میں روا داری کے پیغامات اس حدتک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ یہ تاریخی واقعہ ہے۔ اس میں اقوام عالم کیلئے عبرت ہے۔ یہ اس بات کا چیختا چنگھاڑتا ثبوت ہے کہ دہشتگردی کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ ہی اسکا کسی نسل و قومیت اور فرقے سے کوئی رشتہ ناتہ ہے۔ جو شخص بھی انتہا پسندی کے بیانیے اور اس کے نظریہ کو اپنائے گا وہ تباہ کن نتائج کا باعث بنے گا۔ اگر پرجوش نوجوان جنہیں انسانیت نوازی ، سماجی اقدار اور عبرت انگیز قوانین سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ،وہ دہشتگردی کو اپنالیں تو ایسی صورت میں انتہا پسندی کا بیانیہ کئی مغربی ممالک میں دہشتگردی کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔
بہت سارے مسلم ممالک انتہا پسندانہ تحریکوں ، جماعتوں ، تنظیموں اور دھاروں کا شکار ہیں۔ یہ ممالک انتہا پسندی اور دہشتگردی کی مزاحمت بھی کررہے ہیں لیکن جب تک پوری عالمی برادری اس سے نمٹنے کا تہیہ نہیں کریگی اس وقت تک انتہا پسندی اور اس کے علمبرداروں کی بیخ کنی ممکن نہیں ہوگی۔ کئی مسلم ممالک ایسے ہیں جو دہشتگردی کی سرپرستی کررہے ہیں۔ ان میں ایران، ترکی اور قطر سرفہرست ہیں۔ اس حوالے سے متعدد مغربی ممالک کا رویہ افسوسناک ہے۔ یہ ممالک ابھی تک الاخوان المسلمین جماعت کے مراکز اور اپنے یہاں سیاسی اسلام کی علمبردار جماعتوں کے حوالے سے ٹھوس موقف اختیارکرنے میں ناکام رہے ہیں۔
گزشتہ صدی کے دوران متعدد دہشتگرد تنظیموں اور تحریکوں نے پورے براعظم پر راج کیا۔نازی ازم اورفاشزم وغیرہ کی وجہ سے پوری دنیا کی تاریخ بدلتے بدلتے رہ گئی۔بنی نوع انساں کی خوش قسمتی تھی کہ شدید درجے کے انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی تنظیموں کو دوسری عالمی جنگ میں شکست ہوگئی۔ پھر سرد جنگ کے زمانے میں بھی یہ تحریکیں سر نہ ابھار سکیں۔ تاریخ کا معمول ہے کہ مشکل حالات سے انتہا پسندانہ نعرے ، بیانیے، نظریے اور فلسفے جنم لیتے ہیں۔ مختلف شکلوں میں یہ چیزیں سامنے آتی ہیں۔ الاخوان المسلمون جماعت کا قیام اسی تاریخی عمل کی دین ہے۔ ہر عمل کا ردعمل بھی ہوتا ہے۔ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ مغربی ممالک کے دہشتگرد یا سفید فام نسل پرست دہشتگردی کے جتنے جرائم کررہے ہیں انکا تناسب تاریخ کے اس مشکل دور میں مسلم دہشتگردوں کی سرگرمیوں سے بہت کم ہے۔
اس حقیقت پسندانہ تناظر میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ متعدد مسلم و عرب ممالک کی کوششیں دہشتگردی کے انسداد میں مغربی ممالک کی کاوشوں سے بہت زیادہ ہیں۔عرب ممالک میں سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر پیش پیش ہیں۔ ان چارو ںممالک نے الاخوان المسلمون کو دہشتگرد جماعت قرار دیدیا ہے۔ اس طرح سے یہ ممالک دہشتگردی کے سرچشمے، انتہا پسندی اور تعصب کی جڑوں پر وار کررہے ہیں۔ ان چاروں ممالک نے سیاسی اسلام کے علمبردار بعض تحریکوں کو بھی انہی سے جوڑ دیا ہے۔ 
نیوزی لینڈ کی حکومت اور عوام نے جو کچھ کیا وہ قابل تعریف ہے تاہم اگراس طرح کا واقعہ مختلف شکل میں پیش آتا تو سیاسی اسلام سے منسوب دھارے ایسا مثالی موقف نہ پیش کر پاتے۔ یعنی اگر کوئی مسلم دہشتگرد کسی گرجا گھر یا غیر مسلموں کے کسی عبات گھرپر حملہ کرتا تو سیاسی اسلام کے علمبردار اس انداز سے اس کی مخالفت ، مزاحمت اور مذمت نہ کرتے جس انداز سے نیوزی لینڈ کے سیاستدانوں اور عوام نے کیا ہے۔ ممکن ہے بہت سارے لوگ مذمت کے عمومی بیان جاری کرنے پر اکتفا کرلیتے ۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور عوام کا جمعہ کی نماز میں حاضر ہونا ہر لحاظ سے تاریخی واقعہ ہے۔ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا پیغام ہے۔ جدید تاریخ نے اس جیسا فیصلہ کن مضبوط اور براہ راست موقف کسی بھی ریاست نے اپنے اقلیت کے حوالے سے پیش نہیں کیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنے عوام خصوصاً مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر طرح سے انکی مدد کی جائیگی۔ مسلم دنیا میں روا داری کا بیانیہ انتہا پسندی اور نفرت کے بیانیے سے انتہا درجے کمزورہے۔ ہمیں اس کا اعتراف کرنا ہوگاا اور اس گتھی کو سلجھانا بھی ہوگا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم اور عرب دنیا میں انتہا پسندی اور نفرت کی علمبردار جماعتیں چھائی ہوئی ہیں۔ ان سے نمٹنا بیحد اہم ہے۔ اسکے لئے صبر، مضبوط اسکیمیںاور غیر متزلزل حکمت عملی درکار ہوگی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: