Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور امارات سے قربت، مودی حکومت کی نئی پالیسی

بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی پالیسی میں واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ وہ سعودی اور امارات سے قربت کی کوشش میں ہیں حالانکہ انتخابات جیتنے کے بعد جن ترجیحات کا اعلان کیا تھا ان میں مشرق وسطی کے ممالک کا کہیں ذکر نہیں تھاتاہم معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد مودی نے محسوس کرلیا کہ خلیجی ممالک کے علاوہ مشرق وسطی سے قربت ان کی حکومت کے مفاد میں ہے۔
  • عرب ممالک کے ریکارڈ دورے:
غیر ملکی خبررساں ادارے فارن پالیسی کے مطابق بھارتی حکومت نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سرمایہ کاری، فوجی شعبے میں معاہدے اورمختلف شعبوں میں تعلقات کے فروغ کے کئی اقدامات کئے ہیں۔ اس کے بالمقابل مودی سرکار جہاں خلیجی ممالک کے قریب ہورہی ہے وہاں ایران سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ 2014ء کو نریندر مودی نے خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا اعلان کیاتھا۔بھارتی مبصرین نے ان ترجیحات کو مودی ڈاکٹرائن کا نام دیاتھا۔ شروع میں ایسے لگ رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک مودی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں مگر اندرونی کشمکش اور معاشی بحرانوں کا سامنا کرنے والے مودی نے  2014ء کے بعد عرب ممالک کے8 دورے کئے۔ ماضی میں بھارتی حکمرانوں کی نسبت مودی کے عرب ممالک میں دورے زیادہ دیکھے گئے۔

  • مشترکہ سرمایہ کاری:
بھارت کو خلیجی ممالک کی فہرست میں ایک اہم ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تیل کے استعمال میں بھارت کا مقابلہ چین کے ساتھ ہے اور  2024ء تک چین تیل استعمال کرنے اور اس کی پیداوار کے حوالے سے خطے کا سب سے بڑا ملک بن سکتا ہے۔ بھارت ایران اور سعودی عرب کے تیل پر انحصار کرتا رہا ہے مگر اب نئی دہلی تہران سے دور اور ریاض اور امارات کے قریب ہو رہا ہے۔
روں سال فروری میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھارت کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ سعودی ولی عہد نے بھارت میں 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیاتھا۔ اسی طرح بھارت کی سرکاری پٹرولیم کمپنی نے ابو ظبی میں 60 کروڑ ڈالر کے شیئرز خرید ے تھے۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے4 سالہ دور اقتدار میں خلیجی ممالک کی نوجوان قیادت کے ساتھ قربت پیدا کرنے کوشش جاری رکھی۔ اس کی مثال سعودی عرب اور امارات کے ولی عہد صاحبان کے بھارت کے دوروں سے لی جاسکتی ہے۔ 
بھارت اور خلیجی ممالک میں حالیہ گرم جوشی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری سے ہوئی۔ عرب کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کا موقع فراہم کیا گیا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود 2018ء میں دبئی کی بین الاقوامی بندرگاہ کمپنی ممبئی بندرگاہ پر کنٹینروں کو ذخیرہ کرنے کے لیے 78 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب کی آئل کمپنی آرامکو اور ابو ظبی نیشنل پٹرولیم نے مہاراشٹر میں رانتا گیری میں تیل صاف کرنے کا ایک بڑا کارخانہ قائم کیا جس پر تینوں ملکوں نے مجموعی طورپر 44 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔

  • اسرائیل سے قربت:
مشرق وسطیٰ میں بھارت کی قربت نہ صرف عرب ممالک تک محدود رہی بلکہ مودی سرکار نے اسرائیل کے ساتھ بھی قربت پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس وقت اسرائیلی ریاست بھارت کو فوجی مصنوعات اور سازو سامان کی فراہمی کی سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ 2012ء اور 2016ء کے دوران بھارت نے مجموعی طورپر بیرون ملک سے عسکری سامان کی سپلائی کا 40 فی صد اسرائیل سے منگوایا۔ بھارت نے اس عرصے کے دوران اسرائیل سے 54 ڈرون خرید ے۔ میزائل سسٹم،6 ارب ڈالر کی مالیت سے 'باراک8' میزائل اور دو ارب ڈالر مالیت کے درمیانے فاصلے تک زمین سے فضاء میں مار کرنے والے میزائل خرید کرنے کا معاہدہ بھی کیا۔
 

شیئر: