Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کائنات کے 'سب سے بڑے راز بلیک ہول' کی پہلی تصویر

سائنس میں  'بلیک ہول' کو کائنات  کا سب سے بڑے راز کہا جاتا ہے۔ اس کی حقیقی شکل کیا ہے اور یہ کیسا نظر آتا ہے؟ جیسے سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہمیشہ سے رہی ہے۔ 
اب اس جیسے سوالات کا جواب اس وقت مل گیا جب سائنسدانوں نے بیک وقت دنیا کے کئی حصوں میں بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کر دیں۔
دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے 200 سائنسدانوں کی شبانہ روز کاوشوں اور عالمی سطح پر تشکیل د ئیے گئے 'ایونٹ ہورائزن ٹیلی  اسکوپ' نامی مشترکہ منصوبہ کے تحت حاصل ہونے والی بلیک ہول کی پہلی تصویر خلاء تک رسائی کی انسانی کوششوں کا اہم سنگ میل قرار دی جا رہی ہے۔
سائنسدانوں نے پہلی تصویر حاصل کرنے کے لئے دنیا کے مختلف مقامات پر موجود ریڈیو ٹیلی ا سکوپس کو استعمال کیا۔ 
بلیک ہول کی پہلی تصویر بدھ کو بیک وقت واشنگٹن، ٹوکیو، برسلز، تائپے، سانٹیاگو اور شنگھائی میں منعقدہ تقریبات میں سامنے لائی گئی۔
تصویر کو دنیا بھر میں بڑی خبر کے طور پر جاری کیا گیا تو سوشل میڈیا بھی #BlackHole اور اس سے ملتے جلتے ٹرینڈز کا مرکز بنا رہا۔ ان ٹرینڈز میں حصہ لینے والے متعدد صارفین نے آئن اسٹائن کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اپنے نظریہ کے درست ثابت ہونے کے منتظر ہیں، ہمیں توقع ہے کہ حقیقت ویسا ہی نکلے گی۔
بلیک ہول کی حقیقی شکل سے متعلق اس سے قبل اندازے قائم  کئے جاتے تھے۔ سائنس فکشن فلموں کے مناظر یا خلائی تحقیقات سے متعلق ماہرین کی رائے پر مبنی یہ اندازے اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والوں کو حقیقت جاننے پر اکسانے کے کام آتے رہے ہیں۔
بلیک ہول کی پہلی تصویر دھند میں لپٹے ایسے گرم منظر کی شکل میں دکھتی ہے جہاں روشنی ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ آگ اگلتے پیلے اور زرد رنگوں پر مشتمل یہ ہول اس سے قبل سائنس فکشن فلموں یا فلکیاتی ماہرین کی آراء  پر مبنی ہوا کرتا تھا۔
دنیا کے مختلف مقامات پر نصب8 ریڈیو ٹیلی  اسکوپس کی مدد سے حاصل کردہ ڈیٹا کی مدد سے سائنسدانوں نے تصویر تیار کی ہے جو بلیک ہول کے اردگرد کے مناظر کو نمایاں کرتی نظر آتی ہے۔
اس تصویر کے سامنے آنے سے قبل معروف سائنسدان آئن اسٹائن کی جانب سے تقریبا ایک صدی پیش کردہ نظریہ تسلسل سے ان ماہرین کے پیش نظر رہا جو روشنی تک کو نگل جانے والے ایک سوراخ کی تلاش میں تھے۔
انسانی تاریخ کے اہم موقع کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نے ایک ایسی چیز کا مشاہدہ کیا ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی تھی۔ سائنسدانوں کے مطابق بلیک ہول دنیا سے5 کروڑ 30 لاکھ نوری سال کی مسافت پر موجود ایم 87 نامی کہکشاں میں واقع ہے۔
ہوائی کے مشرقی ایشیائی فلکیاتی مرکز میں موجود جیسیکا ڈیمپسی کا کہنا تھا کہ یہ تصویر انہیں لارڈ آف دی رنگز سیریز میں ساورن کی آگ اگلتی آنکھ جیسی لگی۔
ماہرین کے مطابق تباہ ہو جانے والے ستاروں سے بننے والے چھوٹے بلیک ہولز کی نسبت بڑا بلیک ہول اور اس کا مقام پراسراریت کا حامل ہے۔ یہ ہمارے نظام شمسی جتنے حجم کا ایسا مقام ہے جہاں روشنی اور مادہ ختم اور غائب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
3 برس قبل سائنسدانوں نے ایک غیر معمولی مشاہداتی نظام کے ذریعے 2 چھوٹے بلیک ہولز کے باہم ملنے کی ایسی آوازیں سنی تھیں جو آئن اسٹائن کے پیش کردہ نظریہ کشش ثقل کے مطابق تھیں۔ ایسٹروفزیکل جرنل 'لیٹرز' میں شائع ہونے کے بعد بیک وقت دنیا کے متعدد مقامات پر جاری کی گئی نئی تصویر نے ان آوازوں کو ایک شکل دینے کا کام بھی کیا ہے۔
فلکیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیک ہول کی پہلی حقیقی تصویر کی تیاری کی یہ کاوش بھی کشش ثقل کے نظر ئیے کی طرح نوبل انعام کا حقدار ہے۔
جیسیکا ڈمپسی کے مطابق بلیک ہول کی تصویر آئن اسٹائن کی پیش کردہ جنرل ریلیٹیویٹی تھیوری جیسی ہی ہے۔ ان کے مطابق بلیک ہول کے اردگرد گردش کرتی گیس اور گرد اتنی دور ہے کہ اسے زمین سے دیکھنے کے  لئے لاکھوں سال انتظار کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ تصویر دیکھنے کے  لئے چار دن تک مناسب موقع کا انتظار کیا جاتا رہا۔  تصویر اگر چہ پہلے پیش  کئے  گئے نظریہ کے مطابق گولائی لیے ہوئے ہے تاہم اس کی ایک سائڈ زیادہ روشن ہے، یہ وہ سائڈ ہے جس کی روشنی کا رخ زمین کی جانب ہے۔
بلیک ہول کے حجم کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے جیسیکا ڈمپسی کا کہنا تھا کہ یہ اتنی طویل ہے کہ اسے انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، خلائی ماہرین نے اسے نمایاں کرنے کے لیے سنہری رنگ کا استعمال کیا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والا منظر ایسی گیس کا ہے جو کشش ثقل کے باعث لاکھوں ڈگری درجہ حرارت پر گرم ہو رہی ہے۔
 

شیئر: