Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان: ’ڈپریشن میں اضافہ، ایک سال میں 1338 خودکشیاں‘

وسیم عباسی

 

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے پاکستانیوں میں ڈپریشن میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی عدم استحکام، امن عامہ کی ناقص صورتحال اور بنیادی ضروریات کی عدم فراہمی کو ملک میں ذہنی صحت کے انحطاط کی بڑی وجوہات قرار دیا ہے۔
پیر کو اسلام آباد میں اپنی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن نے بتایا کہ سال 2018 کے دوران ملک میں 1338 خودکشیوں کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 552 واقعات میں خواتین نے اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لی جبکہ 786 واقعات کا شکار مرد تھے۔ ’ان اعداوشمار سے پتا چلتا ہے کہ کتنے ذہنی امراض کا شکار لوگ نفسیاتی تشخیص، علاج اور مدد سے محروم ہیں۔‘
خودکشیوں کے لرزہ خیز واقعات
رپورٹ میں چند واقعات کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ مئی 2018 میں شیخوپورہ کے سرفراز نامی شخص نے بیوی کے چھوڑنے کے بعد اپنے تین بچوں کی جان لے کر خودکشی کر لی۔ اسی سال جولائی میں لاہور کے ایک اے ایس آئی نے مبینہ طور پر چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کر لی۔ ستمبر میں لاہور کی 26 سالہ ماڈل انعم تنولی نے آن لائن ہراسگی کا سامنا کرنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ مبینہ طور پر ماڈل ڈپریشن کا شکار تھی۔ 
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں متعدد طلبہ نے مبینہ طور پر امتحانات میں ناقص نتائج کی وجہ سے خودکشی کی۔ صوبہ سندھ کے تھرپار ضلع میں گزشتہ سال نومبر تک43 خودکشیاں رپورٹ ہوئیں۔
سالانہ رپورٹ میں پاکستان ایسوسی ایشن فار مینٹل ہیلتھ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ذہنی تناو کی سطح بگڑ رہی ہے اور ہر چوتھے گھر میں ذہنی صحت کا لائق علاج مسئلہ موجود ہے۔ ایسوسی ایشن کے مطابق ذہنی صحت کے مسائل میں 25 فیصد ڈپریشن کا شکار ہیں جبکہ مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن کا شکار خواتین عورتوں کی تعداد دوگنا ہے۔ ڈپریشن کی وجوہات میں بجلی، پانی اور گیس کی عدم فراہمی، سیاسی عدم استحکام اور امن عامہ کی صورتحال شامل ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے عالمی ادارہ صحت کے ذہنی صحت کے جامع ایکشن پلان برائے 2013-20 پر دستخط کئے۔ پلان میں انسانی حقوق کے رہنما اصول شامل تھے۔ تاہم انسانی حقوق کمیشن کے مطابق ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پاکستان نے اس سلسلے میں مقاصد کے حصول کے لیے کوئی قومی حکمت عملی بنائی ہو۔
ای سی ایل کے استعمال پر تشویش
کمیشن کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے نقل و حرکت کے حق کے حوالے سے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) کے حد سے زیادہ اور صوابدیدی استعمال کی بہت شکایات ہیں۔ یاد رہے کہ حال ہی میں پاکستان کی بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف سمیت اپوزیشن کے متعدد رہنماوں کے نام نیب کی درخواست پر ای سی ایل میں ڈالے گئے تھے جس کی وجہ سے وہ بیرون ملک سفر نہیں کر پائے۔ شہباز شریف کا نام عدالت کے حکم پر ای سی ایل سے نکالا گیا جس کے بعد وہ لندن روانہ ہوئے مگر پارٹی رہنما مفتاح اسماعیل سمیت اپوزیشن کے متعدد سیاستدانوں اور دیگر افراد کے نام تاحال ای سی ایل پر موجود ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال نیب نے کرپشن کے 440 ریفرنس دائر کر کے 503 ملزمان کو گرفتار کیا جبکہ 44،315 شکایات موصول کیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال کے اختتام تک پاکستان کی 250 کے قریب عدالتوں میں 19 لاکھ کیسز زیر التوا تھے۔
عورتوں اور بچوں کے حوالے سے جرائم
رپورٹ میں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال خصوصاً عورتوں اور بچوں کے خلاف جرائم اور تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کمیشن کے اعداوشمار کے مطابق عورتوں کے خلاف جنسی تشدد کے 845 واقعات رپورٹ کئے گئے اور غیرت کے نام پر 316 جرائم سامنے آئے۔ رپورٹ کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ 
 

شیئر: